Maktaba Wahhabi

249 - 406
﴿ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ [القصص: ۶۸] ’’اور تیرا رب پیدا کرتاہے جو چاہتا ہے اور چن لیتاہے، ان کے لیے کبھی بھی اختیار نہیں ، اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جوتی مرمت کر رہے تھے تو آپ نے ان پوچھا : تمہاری اس جوتی کی قیمت کیا ہے؟ عرض کی: کوئی قیمت نہیں : فرمایا: اللہ کی قسم! تمہاری امارت سے یہ جوتی مجھے زیادہ محبوب ہے۔‘‘[1] آپ کو کبھی یہ خیال تک بھی نہیں آیا کہ ان روایات سے آپ کی خلافت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور اگر ان میں ایسا کچھ ہوتا تو آپ ضرور اس پر جنگ بھی کر لیتے، بھلے سارا عرب آپ کے خلاف ٹوٹ پڑتا بلکہ آپ کا یہ عقیدہ و یقین تھا کہ آپ کی خلافت کی مشروعیت شوریٰ کی بنیاد پر ہے، جس کو قرآن نے مقرر کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت کی راہ دکھائی اور اس کی تاکید کی ہے۔ ایسے ہوتا بھی کیوں نہیں جب کہ آپ کا فرمان ہے: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تمہارے پاس آئے اور جماعت میں تفریق ڈالنا اور امت کا معاملہ غصب کرنا چاہتا ہو اور بغیر مشورہ کے حاکم بن بیٹھے، تو اسے قتل کر دو، بے شک اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔‘‘[2] اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’بے شک لوگ مہاجرین و انصار کے تابع ہیں اور وہ ملک میں مسلمانوں کے ولاۃ الاموراور امرائے دین پر گواہ ہیں وہ مجھ پر راضی ہوئے اور میری بیعت کی اور میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس امت پر مسلط چھوڑ دوں اور وہ ان میں تفریق ڈال دے۔‘‘ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی تو فرمایا:’’ معاملہ ایسے نہیں جیسے آپ فرما رہے ہیں ، پھر ان مہاجرین و انصار کا کیا ہو گا جو یہاں پر ہیں اور آپ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے۔‘‘ تو فرمایا:’’ تمہاری بربادی ہو یہ باقی صحابہ میں سے صرف بدری صحابہ کا حق ہے اور روئے زمین پر کوئی بدری ایسا نہیں جس نے میری بیعت نہ کی ہو اور وہ میرے ساتھ نہ ہو یا وہ میرے ساتھ کھڑا اور مجھ پر راضی نہ ہو۔ پس معاویہ تمہیں تمہارے نفوس اور تمہارے دین میں دھوکا نہ دے۔‘‘[3] ایک دوسرے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
Flag Counter