حضرت علی رضی اللہ عنہ کبھی بھی روایت غدیر خم یا کسی دوسری روایت سے یہ نہ سمجھ پائے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خلافت کے حق دار ہیں ۔ آپ تو ہمیشہ اس کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے اور آپ کو یقینی علم تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾[الاحزاب: ۳۶] ’’اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾[القصص: ۶۸] ’’اور تیرا رب پیدا کرتاہے جو چاہتا ہے اور چن لیتاہے، ان کے لیے کبھی بھی اختیار نہیں ، اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘ توکیا حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت غدیر یا کسی دوسری روایت سے یہ سمجھے تھے کہ آپ امام ہیں ؟ جب آپ اپنی بیعت کے لیے آنے والوں سے فرماتے تھے: ’’آگاہ ہو جاؤ! اور بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور اپنے عرش کے اوپر سے جانتا ہے کہ مجھے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولایت ناپسند تھی، حتیٰ کہ تمہاری رائے اس پر ایک ہو جائے۔ میں نے سنا ہے:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:’’ جو والی بھی میرے بعد ولایت پائے، تو میں پل صراط پر کھڑا ہوں گا اور فرشتے اس کا نامہ اعمال کھولے ہوئے ہوں گے ۔اگر وہ عادل ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کے عدل کی وجہ سے نجات دیں گے اور اگر وہ ظالم ہو گا تو پل صراط اس سے بدلہ لے گی حتیٰ کہ اس کے جوڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ پھر اسے جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ سب سے پہلے اپنی ناک اور چہرہ کو آگ سے بچانے کی کوشش کرے گا، لیکن جب تم ایک رائے پر جمع ہو گئے تو اب تمہیں چھوڑنا میرے لیے ممکن نہ رہا۔‘‘[1] گرامی القدر قارئین کرام! کیا آپ ان روایات سے یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی متعین خلیفہ کے متعلق ان میں نص موجود ہے؟ یا ان میں کوئی ایسی شرط ہے جس کا ہونا خلیفہ کے لیے واجب ہے تو وہ |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |