Maktaba Wahhabi

241 - 406
’’جس نے ان سے دوستی رکھی، اس نے یقیناً مجھ سے دوستی رکھی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے یقیناً مجھ سے دشمنی کی۔‘‘[1] رباح بن حارث فرماتے ہیں : ’’ ایک قافلہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا:’’ السلام علیک یا مولانا تو آپ نے فرمایا: میں تمہارا مولا کیسے ہو سکتا ہوں جب کہ تم ایک عرب قوم ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم نے سنا ہے کہ :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر فرمایا تھا: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ اور ان لوگوں میں انصار بھی تھے۔ ان میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ صحابی رسول بھی تھے۔‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((أنت أخونا و مولانا۔))[3] یہ روایات جو ہم نے یہاں پر بیان کی ہیں اور ان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری روایات ہیں جو کہ مولاہ کے معنی پر بڑی وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں ۔ اور یقیناً ہماری ذکر کردہ اس آخری روایت میں ہمارے مقصود کی واضح دلیل ہے اور یہ سابقہ تمام روایات کی جگہ کفایت کر جاتی ہے۔ روایت یہ کہتی ہے کہ ہارون الرشید نے حضرت کاظم سے سوال کیا: تم لوگ یہ کہتے ہو کہ تمام مسلمان ہمارے غلام اور لونڈیاں ہیں اور بے شک تم لوگ یہ بھی کہتے ہو کہ جس کسی پر ہمارا حق ہو اور وہ ہمیں ہمارا حق نہ دے تو وہ مسلمان نہیں ؟ تو حضرت کاظم نے اس پر ردّ کرتے ہوئے فرمایا: جن لوگوں نے یہ کہا ہے انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔ بلکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ تمام مخلوق کی ہم سے دوستی ہے۔ یعنی دین کی بنیاد پر دوستی۔ مگر یہ جہلاء لوگ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ اس سے مراد ’’ولاء الملک‘‘ یعنی حکومت اور امارت ہے اور اس پر انہوں نے اپنے اس دعویٰ کو محمول کیا ہے۔ ہم اپنے دعویٰ پر بطور دلیل غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول پیش کرتے ہیں ، جب آپ نے فرمایا: ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ اس میں صرف دینی ولایت اور دوستی مطلوب تھی اور کچھ نہیں ۔[4] اور امامیہ نے یہ روایت بھی ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
Flag Counter