Maktaba Wahhabi

238 - 406
کیا انہوں نے اس سے یہ سمجھا تھا کہ آپ امام منصوص ہیں اور پھر بھی انہوں نے کسی دوسرے انسان کی بیعت کر لی تھی، اور آپ کے بیٹے کو قتل کر دیا تھا؟ وغیرہ۔ امامیہ خود اپنی کتابوں میں ایسی نصوص لائے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حدیث غدیر سے لوگ ہرگز یہ نہیں سمجھے تھے کہ آپ کی خلافت تمام اہل ایمان کے لیے عام ہے۔ وہ روایات یہ ہیں : ۱۔ابو اسحق کہتے ہیں میں نے علی بن الحسین سے کہا: حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’من کنت مولاہ .... الخ سے کیا مراد ہے؟[1] ۲۔اور ابان بن تغلب سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ’’من کنت مولاہ .... الخ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: اے ابو سعید! کیا تم بھی اس جیسی باتوں کے متعلق پوچھتے ہو۔[2] ابو تیہان کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا۔ انصار نے کہا: آپ کو خلافت کے لیے متعین کیا تھا؟ اور بعض لوگوں نے کہا: نہیں آپ کو لوگوں کو تعلیم دینے کیلئے مقرر کیا تھا اور آپ ہر اس انسان کے دوست ہیں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی ہے۔[3] اس کی تائید امام صادق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنَا اَوْلٰی بِکُلِّ مُوْمِنٍ مِنْ نَّفْسِہٖ....)) ’’میں ہر مومن کو اس کی جان سے بڑھ کر محبوب ہوں اور میرے بعد علی محبوب ہیں ۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا: اس کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا: اس کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ:’’ جو کوئی مر جائے اور اس پر قرض یا تاوان ہو، تو وہ میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔‘‘[4] یہاں پر دیکھئے، الفاظ کی صراحت کے باوجود انہیں عمومی خلافت پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز امام صادق رحمہ اللہ سے ہی روایت ہے کہ جب غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر المومنین کو کھڑا کیا، تو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کی زبانی یہ پیغام بھیجاکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں
Flag Counter