اس لیے کہ ولایت دونوں اطراف سے ثابت ہوتی ہے۔ بے شک مومنین اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور وہ ان کا دوست ہے اس میں میرے بعد کی کوئی قید نہیں ۔ بلکہ سیاق کلام دونوں طرف سے برابر کی تمام اوقات میں دوستی اورہر لحاظ سے ہونا ہی زیادہ ظاہر ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے عہد میں شریک ہونا ممتنع ہے یہ ایک کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اس سے مراد محبت کا وجوب ہے اس لیے کہ دونوں طرف سے محبت ہونے میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ ان میں سے ایک دوسرے کو مستلزم ہے۔ بھلے وہ ان دونوں کی زندگی میں ہو یا وفات کے بعد۔ جبکہ دونوں کے بیک وقت تصرف میں کئی ایک محذورات ہیں جو کسی ایک پر بھی مخفی نہیں ۔ یہ وضاحت ہمیں اس نظریہ و عقیدہ کی طرف لے جاتی ہے کہ اس جملہ سے مراد خطاب کے وقت میں امامت نہیں تھی ۔ اس لیے کہ یہ عہد نبوت کی بات ہے۔ جبکہ امامت نیابت ہے جس کا تصور انتقال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی ممکن ہے اور زمانہ خطاب میں یہ مراد نہیں ۔ تو ایسا ممکن ہو سکتا ہے کسی متاخر زمانہ میں یہ مراد ہو۔ لیکن تاخیر کی کوئی حد متعین نہیں تو حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کا وقت بھی ہو سکتا ہے تو اس صورت میں فریقین کے مابین اتفاق بھی ممکن ہے۔ لیکن موالاۃ جس کی ضد معاداۃ ہوتی ہے یہاں پر اس کا ذکر صرف حضرت علی کے ساتھ خاص نہیں ۔ بلکہ یہاں پر اس ذکر کی ایک خاص علت ہے اور ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ علت اور سبب لوگوں کے شکوے اور شکایات تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ علم ہو گیا تھا کہ آپ کے عہد میں کیا کیا اختلافات ہوں گے اور آپ کے زمانہ خلافت میں کتنا فساد پھیلے گا اور بغاوت ہو گی اور کچھ لوگ آپ کی خلافت کا نہ صرف انکار کریں گے بلکہ برسر پیکار جنگ ہوں گے حتیٰ کہ آپ نے اپنی موالات اور نصرت پرحدیث غدیر خم سے استدلال کیا۔ یہ حدیث مکمل طور پر امام حسن عسکری کے قول سے موافقت رکھتی ہے۔ جب آپ سے پوچھا گیا (پوچھنے والا حسن بن طریف تھا) کہ حضرت امیر المومنین کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہ کا کیا معنی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا :’’اس سے مراد ایک نشانی مقرر کرنا تھا، تاکہ اس سے افتراق کے وقت حزب اللہ کا پتہ چل سکے۔‘‘[1] حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہل شام کے لشکر سے کہتے ہیں :’’ کیا تم جانتے ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر مومن مرد اور عورت کے دوست ہیں ؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۔‘‘[2] |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |