علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:((اَللّٰہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ)) [1] ان مقامات کا ذکر امامیہ نے کیا ہے اور کہا ہے ان مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہ .... اور یہی بات آپ نے غدیر خم کے موقع پر بھی ارشاد فرمائی تھی۔ ہمارے مذکورہ بالا زیر بحث دلائل اگر امامت کے دلائل ہیں تو سابقہ نصوص باطل ٹھہریں اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر غدیر خم میں نئی بات کون سی پیش آئی ہے؟ اس موقع پرمجھے صدوق کا قول یاد آ رہا ہے، وہ حدیث غدیر پرگفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لوگوں کو کیوں جمع کیا گیا؟ کہ آپ ان میں خطبہ دے رہے ہیں اور اس کی شان کی عظمت یاد دلا رہے ہیں ۔ پس یہ ایسی چیز ہے جس کی بابت یہ جائز نہیں کہ ان لوگوں کو پہلے سے اس کا علم ہو اور آپ مکرر ارشاد فرما رہے ہوں اور نہ ہی کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے جو انھیں اپنے معانی کے اعتبار سے کوئی فائدہ نہ دے۔ اس لیے کہ ایسا کرنا عابث کی صفت ہے اور عبث کا کام کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منفی ہے۔‘‘[2] یہ اہل تشیع کے ایک بڑے عالم صدوق کا اعتراف ہے کہ غدیر سے پہلے جو کچھ پیش آیا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کی کوئی نص موجود نہیں ۔ اس لیے جائز نہیں کہ کسی چیز کا صحابہ کو علم ہو اور پھر بار بار انھیں وہی حکم دیا جائے۔ یہ تمام احتمالات ہمارے ذکر کردہ قواعد کے مطابق بہت بعید ہیں ۔ اب ہم اس مسئلہ پر گفت و شنید کرتے ہیں کہ اس کا صحیح استدلال کیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہ .... الخ حدیث کے اس جز پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ ہم نے اس استدلال کے مقدم کے شروع میں بیان کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ موالاۃ اور اس کے مشتقات کا ذکر قرآن میں بیسیوں بارآیا ہے اور ایسے سنت شریفہ میں بھی اس کا ورود ہوا ہے۔ یہ تمام الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ موالات کا معنی کئی مشترکہ معانی پر محمول ہے ان کی تعداد تیس تک پہنچتی ہے اور ان کا تذکرہ آپ کے سامنے گزر چکا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں سے بہت سارے الفاظ ہماری گفتگو پر صادق نہیں آتے۔ لیکن اس معنی کے اعتبار سے قریب ترین مدلول کا لفظ (موالاۃ) ہے جو کہ معاداۃ اور محاربۃ و مخادعہ کی ضد ہے۔ اس کا معنی خلافت اور امارت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مَنْ کُنْتُ وَالِیْہِ فَعَلِیٌّ وَّالِیْہِ۔ یا اس کے ہم معنی اور قریب کا کوئی دوسرا جملہ ارشاد نہیں فرمایا۔ اب مولیٰ کو والی کے معنی میں لینا باطل ہے۔ |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |