عبدالمطلب اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے: اے اللہ کے رسول! یہ انصار مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کے مردو خواتین آپ کے لیے رو رہے ہیں ۔ تو آپ نے دریافت کیا: وہ کیوں رو رہے ہیں ؟ کہنے لگے: وہ خوف محسوس کرتے ہیں کہ آپ فوت ہو جائیں گے۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ اپنے ہاتھ مجھے دو [یعنی مجھے سہارا دیکر اٹھاؤ۔] آپ کپڑے میں لپٹے ہوئے اور سر پر پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے منبر پر جلوہ افروزہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اورپھر فرمایا: ’’ میں تمہیں اس انصار کی بستی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں ۔ تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کے ہاں ان کے امتحان و آزمائش کا علم ہوچکا ہے۔ کیا انہوں نے اپنے گھروں میں وسعت نہیں دی۔اور اپنے آدھے پھل پیش نہیں کئے؟ اور اپنی انتہائی ضروریات پر تمہیں ترجیح نہیں دی؟ پس تم میں سے جو کوئی بھی والی بنے اس میں خواہ وہ کسی کو تکلیف دے یا فائدہ پہنچائے اسے چاہیے کہ انصار کے اچھے لوگوں کی اچھائی قبول کرے اور ان کی غلطیوں سے عفو و درگزر سے کام لے۔ یہ آپ کی آخری مجلس تھی جس میں جلوہ افروزہوئے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔‘‘ [1] اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آگاہ ہوجاؤ! بیشک انصار میری کمان ہیں ۔ ان کے غلط کاروں کو معاف کرو اور ان کے نیک و کار لوگوں کی مدد کرو۔‘‘[2] اور حضرت امام کاظم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ’’ اے انصار کی جماعت!اب جدائی کا وقت آگیا ہے مجھے اب بلاوا آگیا ہے اور میں نے منادی کو لبیک کہہ دیا ہے۔ تم نے پڑوس اختیارکیا اور پڑوس میں بہت اچھا سلوک کیا۔اور تم نے نصرت کی اور بہت اچھی نصرت کی ۔ تم نے اپنے اموال سے دلجوئی کی اور مسلمانوں کو وسعت دی |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |