پیروی کی ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا‘‘۔
یہودونصاریٰ اور مشرکین مکہ سب اتنا تو ضرور جانتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے، ان کا دین سچا دین تھا، مگر پھر بھی اس دین سے انحراف کرتے تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اتنے صاف شفاف اور واضح دین سے انحراف صرف ایسا شخص ہی کر سکتا ہے، جو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہو، ورنہ حق واضح ہے اور سچائی اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ جھلملا رہی ہے کہ تمام صفات جمیلہ کا حامل دین حنیف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے، ان کی تصدیق ان کی کتب بھی کر رہی ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٣٠﴾ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٣١﴾ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّٰهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٣٢﴾)(سورۃ البقرۃ: آیت 130 تا 132)
یعنی: ’’ملت ابراہیم (علیہ السلام) سے تو وہی نفرت کر سکتا ہے جس نے خود اپنے آپ کو احمق بنا لیا ہو بیشک ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں منتخب کر لیا اور وہ آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہوں گے یقیناً جب ان کے رب نے فرمایا کہ فرمانبردار بن جاؤ تو انہوں نے فورا کہا کہ میں جہانوں کے پروردگار کا فرمانبردار بن گیا۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا‘‘۔
خوش قسمت ہے امت محمدیہ جنہیں دین حنیف ملت ابراہیم علیہ السلام دیا گیا، اسی لئے فرمایا جا رہا ہے:
(مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا)
|