Maktaba Wahhabi

183 - 253
(دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿١٨٩﴾ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿١٩٠﴾ أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿١٩١﴾ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿١٩٢﴾) (سورۃ الاعراف: آیت 189 تا 192) یعنی: ’’دونوں (میاں بیوی) اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں صحیح سالم نیک اولاد دے دی تو ہم تیری خوب شکر گزاری کریں گے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سالم اولاد دے دی تو اس کی دی ہوئی چیز میں وہ دوسروں کو اللہ کا شریک قرار دینے لگتے ہیں۔ سو اللہ پاک ہے ان کے اس شرک سے۔ کیا یہ ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور نہ ہی وہ اپنی ذات کی مدد کر سکتے ہیں‘‘۔ اولاد کو گالیاں اور بددعائیں دے کر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہیں، معمولی سی تکلیف بچے کی طرف سے آئی تو کہہ دیا کہ یہ تو پیدا ہی نہ ہوتا تو اچھا تھا، یہ مرتا کیوں نہیں، اللہ مجھے یہ اولاد دے کر بھول گیا وغیرہ۔ والدین کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ ان کی دعا یا بددعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے، لہٰذا انتہائی محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔ یا ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان پر کبھی دھیان ہی نہ دیا بلکہ کوئی مصیبت آئی تو اللہ کے شکوے شروع کر دئیے اور اولاد، رزق اور صحت جیسی بیش قدر نعمتوں کو بھول گیا۔ (3) اولاد کے لئے صالح ماحول کا انتخاب کرنا چاہیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے گھروں کے پاس بسایا اور یہ مبارک عمل جس نظریے سے کیا اسے اپنی دعا میں یوں ظاہر کیا: (رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ
Flag Counter