Maktaba Wahhabi

72 - 253
یعنی ایسی باتوں میں تو تمہارا جھگڑا کرنا کسی حد تک قابل فہم ہے، جن کا تمہیں کچھ علم ہے، یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو تورات اور انجیل میں بشارت دی گئی ہے وغیرہ۔ مگر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نہ دیکھا، نہ ان کا زمانہ پایا اور نہ ہی ان کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے، پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی تھے؟ یاد رکھو! (مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾) (سورۃ آل عمران: آیت 67) یعنی: ’’سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے نہ عیسائی تھے بلکہ سب سے ہٹ کر اللہ ہی کا حکم ماننے والے تھے اور نہ ہی وہ مشرک تھے‘‘۔ یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے والے تھے، کسی طاغوتی طاقت کے آگے ہرگز نہ جھکتے، وہ خالص موحد تھے، مشرک بالکل نہیں تھے، جبکہ تم دونوں مشرک ہو، یہود عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور تین خداؤں میں تیسرا خدا کہہ دیتے ہیں اور تم اللہ کے بھی احکام بجا نہیں لاتے، کتاب اللہ کو پس پشت ڈال رکھا ہے، جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کے ایک ایک حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے تھے تو تم تحریف کرتے ہو، شرک کرتے ہو، پھر کیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے متبع کہلا سکتے ہو اور وہ تمہارے دین پر کیسے ہو سکتے ہیں، اس سے بڑھ کر تمہیں تو ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حسب و نسب کے لحاظ سے بھی قرابت جگانے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ تم نے اس کی لاج ہی نہیں رکھی کہ اس کے دین کے متبع بن جاؤ اور جس خدا سپردگی کی وجہ سے انہیں یہ عزت و شرف حاصل ہوا ہے، تم اس کو اپنے اندر پیدا کر سکو بلکہ ان کے قریب تر تو وہی لوگ ہیں جو عقائد و اعمال کے لحاظ سے ان کے پیروکار ہیں اور انہوں نے ان کی ایک ایک ادا کو اپنایا اور ایک ایک حکم کو ماتھے کا جھومر سمجھا جو کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہی
Flag Counter