Maktaba Wahhabi

399 - 503
اس قوت سے متعلق ایک اور بات بھی انتہائی قابل توجہ ہے کہ وہ اکثر اوقات اپنی تعداد، تیاری اور جنگی تجربہ کے اعتبار سے بڑی نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے مدمقابل فریق ان حوالوں میں ان سے کہیں بڑھ کر ہوتا تھا مگر وہ پھر بھی مسلمانوں کی قوت کے سامنے ڈھیر ہو جاتا۔ اگر فاتحین کے پاس مادی عنصر کے علاوہ کوئی اور عنصر نہ ہوتا تو وہ اس دشمن پر غلبہ حاصل نہ کر پاتے جو حربی فنون میں بھی ان پر فوقیت رکھتے تھے اور تعداد اور تیاری میں بھی، اور وہ عنصر تھا: وہ زندہ اور متحرک عقیدہ جو دلوں کو بھر دیا کرتا تھا، یہ ہے وہ دلیل جس پر ہم اس جگہ ان دعویٰ جات کے برعکس توجہ مرکوز کریں گے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ بنو امیہ کے انحرافات نے دین کے آغاز کار میں ہی اس کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ ہم اس نکتہ پر ذرا تفصیل سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔ اس دوران ہم قارئین کے ذہنوں سے یہ خبیث تاثر دور کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام خلافت راشدہ کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا اور اس کا وجود باقی نہیں رہا تھا اور ایسا ہم پوری امانت داری اور باریک بینی کے ساتھ اسلام کے امر واقع کی روشنی میں کرنا چاہیں گے۔ اموی دور حکومت میں انحرافات و استقامات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ انحراف کے باوجود بھی حقیقی دین اسلام سے جو کچھ بچ رہا وہ بھاری بھر کم تھا اور یہ دین حنیف کی شان و شوکت کی قوی دلیل ہے اور یہ کہ اس کی جڑیں بڑی گہری اور مضبوط ہیں، بایں طور کہ حاصل کردہ بھاری بھر کم حصہ باقی رہا اور اس کی وجہ سے تر و تازگی سلامت رہی جو روئے زمین میں پورے جوش و خروش اور شجاعت و بسالت کے ساتھ دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے کوشاں تھی اور جو ذمہ داری خاص طور پر عہد اموی میں اہل اسلام نے نبھائی۔[1] اس امر میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کے بارے میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے زیادہ تر افراد میں انحطاط تنزلی آ گئی مگر آپ اسے انحراف سے تعبیر نہیں کر سکتے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں اور لوگوں کے نفوس سے اس نئی اٹھان کے اثر کے زوال کے بعد اس معاشرے میں اس کی توقع کی جا سکتی تھی، مگر یہ وہی نسل تھی جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ)) [2] ’’تم میں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو اُن کے بعد آئیں گے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘ بنو امیہ کا زمانہ فضیلت کا حامل زمانہ تھا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے بعد (اس کے مقابلے میں)کسی بھی انسان کی شہادت کا کوئی اعتبار نہیں۔[3] یہ درست ہے کہ ہم اس وقت اسلام کے عادی معیار کے سامنے کھڑے ہیں اور اگرچہ یہ معیار وہ اعلیٰ ترین معیار نہیں ہے جس تک قبل ازیں کی نسل نفیس نے رسائی حاصل کی تھی مگر ذاتی طور سے یہ معیار رفیع الشان تھا اور وہ اس وقت بھی لوگوں میں وہ بھلائیاں بانٹ رہا تھا جو کسی اور نظام کے بس کا روگ نہیں تھا۔[4] حقیقت تو یہ ہے کہ اموی معاشرے میں کئی افراد خوبصورت اور قابل رشک معیار
Flag Counter