فریقین میں جنگ ہوتی۔ مگر یاد رہے کہ یہ جنگ کسی کو قبول اسلام کے لیے مجبور کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ قوت کے ان مراکز کے خاتمہ کے لیے ہوتی جو حق کو لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھے، پھر جب سرکشی کے مراکز کا خاتمہ کر دیا جاتا اور انسانی نفوس سے ان کی تاثیر زائل ہو جاتی تو لوگوں کو اسلام کے سایہ عاطفت میں آزاد چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ جس دین کو چاہیں اسے اپنا سکیں۔[1]
مذموم مقاصد کے حامل بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلامی فتوحات کی تحریک کا اصل سبب مال و زر کا حصول تھا، مگر اس دعویٰ کا بودا پن اس امر سے واضح ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو اقتصادی مقاصد متحرک کرتے ہیں وہ اس طرح گھروں سے نہیں نکلتے کہ سب سے پہلے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں اور اگر وہ مشرف باسلام ہو جائیں تو اپنے ہتھیار پھینک کر انہیں بھائیوں کی طرح گلے لگا لیں اور پھر انہیں اسلامی تعلیمات سے فیض یاب کرنے لگ جائیں تاکہ وہ بھی اس خیر ربانی میں ان کے شراکت دار بن جائیں جو رب کائنات نے انہیں پہلے سے عطا کر رکھی ہے، اس قسم کے جھوٹے لوگ تاریخ پر جھوٹ باندھنے کے مرتکب ہوتے اور بہت بڑی علمی خیانت سے روسیاہ ہوتے ہیں۔[2]
اصل بات یہ ہے کہ امت اسلامیہ کے نفوس میں اسلامی وجود کی گہرائی ہی وہ اصل قوت تھی جس کی وجہ سے امت مسلمہ متحرک ہوئی، اگر اسلامی وجود اس کی گہرائی میں نہ اتر چکا ہوتا اور وہ اس کی تعلیمات کی کماحقہٗ نمائندگی نہ کر رہی ہوتی تو وہ اس قدر برق رفتاری کے ساتھ اتنی موثر اور فعال تحریک برپا کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکتی، یہ امت، دین اسلام کے لیے بڑی حریص تھی اور اس پر پختہ ایمان رکھتی تھی اور اسے اس بات میں بڑی دلچسپی تھی کہ وہ اسے زمین کے گوشہ گوشہ میں عام کرے اور بنی نوع انسان کو اس سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرے، فتوحات اسلامیہ کی اس تحریک کے دوران جس قسم کے عجیب و غریب واقعات پیش آئے ان کا صدور محض قوت کی وجہ سے ممکن نہیں تھا کتنی ہی سرکش اور متمرد قوتوں نے اپنی طاقت کو زمین میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے اندھا دھند استعمال کیا مگر وہ تاریخ عالم کے صفحات پر وہ عجائب رقم نہ کر سکی جو تحریک اسلامی کے حصے میں آئے۔
تلوار کے ذریعے زمین کو فتح کرنا تو ممکن ہے مگر وہ دلوں کو فتح نہیں کر سکتی، اسلامی فتوحات کی تحریک کے دوران جو کچھ ہوا وہ محض توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ممکن نہیں تھا، دلوں کو فتح کرنے کا مقصد انہیں اسلام کے فیوض و برکات سے مستفید کرنا تھا اور وہ ان سے اس حد تک مستفید ہوتے کہ اکثر علاقوں میں مفتوحہ اقوام اپنی مادری زبانوں کو بھول گئیں اور دین اسلام کی زبان (عربی) کو سرکاری زبان کے طور پر اپنا لیا یہاں تک کہ غیر مسلم اقوام نے بھی۔ اگر فاتحین حقیقی مسلمان نہ ہوتے تو ایسا ہونا ممکن نہیں تھا، اور اگر وہ عقیدہ و عمل میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہوتے تو اسلامی فتوحات کے دوران ان عجائبات کا ظہور نہیں ہو سکتا تھا۔
|