Maktaba Wahhabi

176 - 503
کرنے کی کوششوں سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ وہ بعض اعیان و ولاۃ پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک خطبہ کے دوران فرمانا پڑا: سنو! بسر(بن ارطاہ) نے حضرت معاویہ کی جانب سے خبر دی ہے ، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ لوگ تم پر غالب آ جائیں گے اس لیے کہ وہ ناحق پر ہونے کے باوجود مجتمع ہیں جبکہ تم حق پر ہونے کے باوصف متفرق ہو، وہ لوگ اپنے امیر کی اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امیر کی نافرمانی کرتے ہو۔ میں نے فلاں کو عامل مقرر کیا مگر اس نے خیانت کی، غداری کا مرتکب ہوا اور مال و زر حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بعض امراء معمولی معمولی چیزوں میں خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ میرے اللہ! میں ان سے نفرت کرتا ہوں اور یہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں انہیں مجھ سے اور مجھے ان سے راحت پہنچا۔[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان مصائب و مشکلات اور اپنی سپاہ کی اس پست ہمتی کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے، انہوں نے اپنے لشکر کی محبت بڑھانے کے لیے اپنا علم اور فصاحت و بیان سب کچھ کھپا ڈالا مگر اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ شجاعت و بسالت پر مبنی ان کے ان مشہور خطبات جن کا شمار اہم ترین ادبی ورثہ میں ہوتا ہے وہ ایسی کڑواہٹ تھی جس کے گھونٹ انہیں بار بار پینا پڑے اور وہ ایسا دردناک امر واقع تھا جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ میں نے ان میں سے بعض خطبات امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنی کتاب میں ذکر کیے ہیں۔[2] عاشرًا:…امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ میں صلح ان تھکا دینے والی کوششوں کے باوجود امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے، اس لیے کہ وہ اپنی سپاہ میں داخلی انتشار و خلفشار اور اس کی خواہش پرستی کی وجہ سے شام کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہ آ سکے، چنانچہ انہیں ۴۰ھ میں یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا کہ عراق پر میرا اقتدار قائم رہے گا اور شام پر ان کا اور ہم ایک دوسرے کے معاملات اور علاقوں میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے، نہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ ہو گی نہ غارت گری اور نہ ہی کوئی دیگر فوجی کارروائی۔[3] طبری اپنی تاریخ میں اس صلح کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ صلح جاری نہ رہ سکی، جس کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سال بسر بن ارطاۃ کو حجاز اور یمن کی طرف بھیجا۔[4] الحادی عشر:…معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنتے ہیں جب علی رضی اللہ عنہ اپنے ارادے اور چاہت کے مطابق لشکر کو تیار کرنے سے قاصر رہے اور انہیں اس حوالے سے
Flag Counter