اولاً تو علامہ المنذری نے ہی امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت پر نقد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ
((سئل أبوحاتم الرازی عن إبراھیم بن إسماعیل ھذا فقال: مجھول)) [1]
’’امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ رازی سے ابراہیم بن اسماعیل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا یہ مجہول ہے۔‘‘
یہ وہی علامہ المنذری ہیں جن سے حضرت موصوف نے قواعد علوم الحدیث[2] میں ’مقدمۃ الترغیب والترھیب‘ سے نقل کیا ہے کہ’’ جس پر امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ سکوت کریں وہ درجۂ حسن سے کم نہیں۔‘‘مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جیسے مولانا عثمانی نے یہاں امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت پر نقد سے اجتناب کیا اسی طرح مقدمۃ الترغیب میں اس سے صرف دو سطر قبل جو کچھ علامہ منذری نے فرمایا اس کی طرف بھی انھوں نے التفاف نہیں فرمایا ۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
((وأنبہ علی کثیر مماحضرنی حال الإملاء مماتساھل أبو داود رحمہ اللّٰه تعالیٰ فی السکوت عن تضعیفہ أو الترمذی علی تحسینہ)) [3]
’’اور میں اکثر املا کے دوران میں جو مستحضر ہوا اس پر متنبہ کروں گا جو امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ سے ضعیف حدیث پر سکوت میں یا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین میں تساہل ہوا ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت موصوف نے ابراہیم بن اسماعیل کو مقارب الحال ثابت کرنے کے لیے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے جو تکلف فرمایا انصاف کا تقاضا تھا کہ خود علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ سے ابراہیم بن اسماعیل کا ترجمہ ذکر کرتے،مگر وہ یہ بھی نہ کر پائے۔ دیکھئے انھوں نے کیا نقل
|