Maktaba Wahhabi

32 - 413
’’اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح وانبساط نہیں رہتا، بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے ،پھر تأویل کی فکر ہوتی ہے، خواہ کتنی ہی بعید ہو، خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو، بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو، بلکہ خود اپنے دل میں اس کی تأویل کی وقعت نہ ہو، مگر نصرتِ مذہب کے لیے تأویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں۔‘‘[1] امام رازی رحمۃ اللہ علیہ سے لیکر حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ تک کے اکابرین نے مقلدین کے بارے میں جو اسی نوعیت کے تاثرات دیئے ہیں وہ وسیع الذیل ہیں اس لیے ہم ان سے یہاں صرف نظر کرتے ہیں۔ آپ ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ صحیح روایات کی تأویل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک کو معاف نہیں کیا گیا۔ ام شریک انصاریہ رضی اللہ عنہا جیسی مشہور صحابیہ کی روایت کو مجہولہ کہہ کر گلوخلاصی کی گئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو خاتون خانہ کی روایت کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی صغیر صحابی کہہ کر بے وقعتی کی گئی ۔ ان تمام امور کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔ إعلاء السنن میں اس نوعیت کی بے اعتدالیوں سے بعض دیگر اہلِ علم نے بھی خبردار کیا ہے۔ چنانچہ(( رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم أئمۃ الجرح والتعدیل بین التوثیق والتجھیل)) کے فاضل مصنف شیخ عداب محمود الحمش لکھتے ہیں: ((طبع ھذاالکتاب مع مقدماتہ الثلاثۃ فی واحدوعشرین جزئً ،
Flag Counter