Maktaba Wahhabi

31 - 413
احادیث کو جمع کرنا ہے۔ [1] انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر خانقاہ امدادیہ، تھانہ بھون سے صرف یہی إعلاء السنن مرتب ہوئی ہوتی تو یہی اس کے فضل وکرامت کے لیے کافی تھی۔[2] اسی کتاب کا جائزہ ہم نے آئندہ اوراق میں قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے اس میں فقہی مباحث سے تعرض نہیں کیا کہ اہلِ علم اس بارے میں اپنی اپنی دادِ تحقیق پیش کر چکے ہیں، اور طلبۂ علم انھیں دیکھ کر کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ ہم نے یہاں ان قواعد اور اصولوں کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے جن کو مولانا عثمانی نے حدیث کی تصحیح وتضعیف میں اختیار کیا ہے۔ آپ ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ مولانا ایک قاعدہ بڑی خوبصورتی سے اختیار کرتے ہیں، مگر دوسرے مرحلے میں بڑی بے جگری سے اسے تارتار کر دیتے ہیں حتی کہ مفید مطلب روایت کنز العمال یا جمع الفوائد میں آئی ہے اور اس پر اس کے مصنفین نے سکوت اختیار کیا ہے ،تو وہ بھی صحیح قرار پاتی ہے۔مسند امام احمد کی ایسی ہی روایات کو مقبول قرار دیا گیا ، حالانکہ ان کے راویوں کو اکثر ائمۂ جرح وتعدیل نے ضعیف اور متروک قرار دیا ہے ۔کسی ایک محدث کی توثیق کی بنا پر وہ راوی ((مختلف فیہ)) قرار پاتا ہے اور فرمایا جاتا ہے ((مختلف فیہ)) کی حدیث حسن ہوتی ہے۔ خیر القرون کے راویوں کی تدلیس وارسال کے بارے میں فرمایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے نزدیک مضرنہیں، لیکن انھی راویوں کی روایت خلافِ مذہبِ حنفی ہو تو ان کی تدلیس مضر اور باعثِ ضعف بن جاتی ہے۔ حتی کہ کذاب اور وضاع راوی کی روایت سے اگر حنفی مذہب کی تائید ہوتی ہے تو اس کے دفاع کی بھی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے ،بلکہ نقلِ روایت میں بھی بڑی مصلحت بینی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ صحیح روایات کی تاویل میں ایسی راہیں اختیار کی گئی ہیں جن سے ان کے شیخ محترم مولانا تھانوی کے ایک خط کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، جو انھوں نے مولانا گنگوہی کی خدمت میں لکھاتھا۔
Flag Counter