Maktaba Wahhabi

238 - 413
والا بھی جانتا ہے کہ بہت کم ثقہ راوی ہیں جن پر جرح کا کوئی کلمہ نہ ہو، اسی طرح بہت کم ضعیف راوی ہیں جن کو کسی نے بھی ثقہ نہ کہا ہو۔ تو کیا ایسے تمام راویوں کو صدوق اور ان کی احادیث کو حسن قرار دیا جائے گا؟ مولانا عثمانی نے اس اصول کو اعلاء السنن میں جابجا اختیار کیا اور اکثر وبیشتر اس سے اپنی مؤید روایات کو سہارا دیا۔[1] چنانچہ ’باب استحباب التسمیۃ عند الوضوء‘ کے تحت مسند امام احمد کی ایک حدیث مجمع الزوائد سے نقل کی اور علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تبصرہ بھی نقل کیا کہ ’’اس میں ابو ثفال راوی کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: اس کی حدیث میں نظر ہے اور باقی راوی الصحیح کے راوی ہیں۔‘‘ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اسی ابو ثفال کے بارے میں فرماتے ہیں: ((أبو ثفال ھو ثمامۃ بن وائل بن حصین مشہور بکنیتہ مقبول کما فی التقریب، فھو مختلف فیہ، والاختلاف لایضر)) [2] ’’ابو ثفال وہ ثمامۃ بن وائل بن حصین ہے جو اپنی کنیت سے مشہور ہے۔ تقریب میں ہے کہ وہ مقبول ہے لہٰذا یہ راوی مختلف فیہ ہے اور اختلاف ضرر کا باعث نہیں۔‘‘ یہاں یہ بات بھی پیش نگاہ رہے کہ مسند احمد کی یہ روایت ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ کتبِ حدیث میں مروی ہے۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ثفال پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جرح نقل کی، جس کے مقابلے میں مولانا عثمانی نے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا مقبول ہونا نقل کر کے ابو ثفال کو’’مختلف فیہ‘‘ قرار دے کر جرح کورد کر دیا ہے کہ یہ یہاں باعثِ ضرر نہیں۔ حالانکہ ابوثفال کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کے علاوہ، امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور ابن
Flag Counter