الآمدی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اصولیین کا بھی یہی موقف ہے۔ اسی مسئلہ کی مزید تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
((بل المسألۃ أي۔ تقدم الجرح علی التعدیل۔ مقیدۃ بأن یکون الجرح مفسراً)) [1]
’’جرح کا تعدیل پر مقدم ہونا اس بات سے مقید ہے کہ وہ جرح مفسر ہو۔‘‘
اس لیے مختلف فیہ راوی کو صدوق اور اس کی روایت کو حسن قرار دینا جہابذہ محدثین کا موقف نہیں بلکہ دیکھا جائے گا کہ اس راوی پر جرح مقدم ہے یا تعدیل،جرح مفسر ہو گی تو وہ تعدیل سے مقدم ہو گی یا دیگر قرائن کے تناظر میں دیکھا جائے گا، دونوں میں کونسی بات راجح ہے۔ دیگر قرائن کا ذکر بھی نقد وجرح کے اصول پر مشتمل کتب میں بڑی شرح وبسط سے مذکور ہے۔خود مولانا عثمانی مرحوم نے فرمایا ہے:
((اذا کان الجرح مفسراً والتعدیل مبھماً قدم الجرح ھذا ھو الأصح عند الفقہاء والأصولیین، ونقلہ الخطیب عن جمہور العلماء)) الخ[2]
’’جب جرح مفسر ہو اور تعدیل مبہم ہو تو جرح مقدم ہو گی، فقہاء اور اصولیین کے نزدیک سب سے اصح یہی قول ہے اور خطیب رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قول جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔‘‘
تقریباًیہی بات انھوں نے قواعدمیں ایک اور مقام پر بھی کہی ہے۔[3] اس لیے ہر مختلف فیہ راوی کے صدوق ہونے کا فیصلہ کیونکر درست قرار دیا جا سکتا ہے؟
پھر’’مختلف فیہ‘‘ راوی کے لیے کیا تناسب ہے کہ کتنے توثیق اور کتنے تضعیف کرنے والے ہوں،تب اسے مختلف فیہ قرار دیا جائے گا۔کتب جرح وتعدیل سے ادنی واقفیت رکھنے
|