Maktaba Wahhabi

198 - 413
حالانکہ علامہ المناوی رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الصغیر کی شرح فیض القدیر میں کہا ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منکر کہا ہے ’’المختارۃ‘ میں اسے ذکر کرنے کے کیا معنیٰ ہیں؟علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کے راوی سعودبن عمروالبکری کے ترجمہ میں کہا ہے میں اسے نہیں پہچانتا اور اس کی یہ خبر باطل ہے۔[1] دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ہے۔ ((علي أصلی وجعفر فرعی)) علامہ المناوی نے فیض القدیر میں نقل کیا ہے کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس میں کئی راوی ہیں جنھیں میں نہیں جانتا۔ شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہمارے شیخ أحمد الغماری نے اپنی کتاب ’المغیر علی الأحادیث الموضوعۃ فی الجامع الصغیر‘ میں اسی روایت کے بارے میں فرمایا ہے: ’ھو کلام فاسد غیر مفہوم ولا معقول‘ ’’یہ کلام فاسد ہے جو غیر معقول اور اس کا کوئی مفہوم نہیں۔‘‘ شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے اور روایات کی طرف بھی فیض القدیر کے حوالے سے اشارہ کیا ہے۔[2] اس لیے جب علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ اصول کلی طور پر صحیح نہیں تو محض اس بنیاد پر ’’المختارۃ‘‘ کی روایات کو صحیح کہے جانے میں کونسی معقولیت ہے؟ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن کثیر بن جعفر کے ترجمہ میں ’’المختارۃ‘‘ سے ایک روایت نقل کی ہے اورفرمایا ہے: ((لایدری من ذا، وھذا باطل والإسناد مظلم، تفردبہ عبد اللّٰه بن أیوب المخرمی عنہ، لم یحسن ضیاء الدین بإخراجہ فی المختارۃ)) [3] ’’معلوم نہیں یہ کون ہے، یہ حدیث باطل اور سند مظلم ہے عبد اللہ بن کثیر سے روایت
Flag Counter