جو آپ کے سامنے ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں تو انھوں نے بالکل اندھیرے میں تیر تکا چلایا ہے۔ ایک تو یہ کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عفیر کے ضعف کا ذکر کیا ولید کی تدلیس کا نہیں۔ حالانکہ آپ پڑھ آئے ہیں کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عفیر کی بنیاد پر بھی قطعاً اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ تو اسے صحیح الاسناد کہتے ہیں۔[1] اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان پر تعاقب کیا ہے کہ اس میں تو عفیر’واہ جداً‘ بہت ہی کمزور ہے۔ بتلائیے کہ اس وضاحت کے بعد حضرت موصوف کا فرمانا کہ
((وکذا الحاکم إنما نظر فیہ بضعفہ ولم یذکرا (أی المنذری والحاکم) فیہ علۃ الولید)) [2]
محض تیرتکا نہیں تو اور کیا ہے؟
ثانیا:ً ان کا یہ فرمانا کہ ’طریق الحاکم سالمۃ عنھا‘ ’’حاکم کی سند ولید کی تدلیس سے سالم ہے۔‘‘ یہ بھی محض اس بنیاد پر ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ نے ولید کی تدلیس پر اعتراض نہیں کیا۔ اگر یہ علت مؤثرہ ہوتی تو حافظ منذری الترغیب میں یہ روایت ’عن‘ سے نہ لاتے۔ مگر یہ دفاع بھی تارعنکبوت سے ضعیف تر ہے کیونکہ حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمۃ الترغیب میں فرمایا ہے:
((أوکان إسنادہ ضعیفاً لکن صححہ أو حسنہ بعض من خرجہ أصدرہ أیضاً بلفظ عن)) [3]
’’یا اس کی سند ضعیف ہو لیکن جس نے اس کی تخریج کی اس نے اسے صحیح یا حسن کہا ہو تو میں اسے بھی ’’عن‘‘ سے ذکر کروں گا۔‘‘
غور فرمائیے حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے عفیر کو’’واہ‘‘ کہہ کر اس کی سند کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کر دیا مگر ’’عن‘‘ سے اس لیے ذکر کیا کہ ان کی وضاحت کے مطابق امام
|