نے نماز نہیں پڑھی الا یہ کہ وہ نماز امام کے پیچھے پڑھی جائے۔‘‘ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت شرح معانی الآثار[1] میں اسی طرح مرفوع ذکر کی اور اس پر خاموش رہے۔ یہاں یحییٰ بن سلام کا ضعیف ہونا اور حافظہ کا خراب ہونا یاد نہیں رہا۔ کہ مسلک کی ترجمانی کا یہی تقاضا تھا۔
فاتحہ خلف الامام کے اثبات کے آثار کے مقابلے میں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’قد روی عن غیر ھم بخلاف ذلک‘ ’’ کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس کے خلاف مروی ہے۔‘‘ اس کے بعد سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل کیا: ’من قرأ خلف الامام فلیس علی الفطرۃ‘ ’’کہ جس نے امام کے پیچھے قراء ت کی اس نے فطرت کے خلاف کیا۔[2] اورپھر دیگر آثار نقل کر کے فرمایا: صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس جماعت کا ترک قراء ت خلف الامام پر اجماع ہے۔ باقی آثار کو تو جانے دیجئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی اثر ابن ابی لیلی کے ہی واسطے سے ہے جسے وہ خود ضعیف اور سیء الحفظ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہاں اس سے استدلال کرتے ہیں۔ ابن ابی لیلی نے اسے ’حدثنی صاحب ھذا الدار‘ کہہ کر بیان کیا ۔اور نام تک لینا پسند نہیں کیا۔ معلوم نہیں یہ مبھم راوی کون اور کیسا ہے،مگر امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ ایسے راوی کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ اس کا استاد المختار بن عبد اللہ بن ابی لیلیٰ بھی مجھول ہے۔ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی اس روایت کے بارے میں کہا ہے : ’لأاصل لہ‘ کہ اس کی کوئی اصل نہیں۔ اور سند بھی مضطرب ہے۔ اور علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی فرمایاہے کہ ابن ابی لیلیٰ کا فقہ میں تو بڑا مقام تھا مگر ’مضطرب الحفظ جدا‘ اس کا حافظہ بہت ہی مضطرب تھا۔[3] علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے نصب الرایہ[4] میں ، علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر[5] اور مولانا لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام الکلام[6] میں اس کی تضعیف نقل کی ہے۔ اس کے باوجود امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اول وہلہ میں اس سے استدلال کرتے ہیں۔
|