’’میرا ارادہ تو کسی اہلِ علم کی تضعیف کا نہیں نہ یہ میرا مذہب ہے بلکہ میرا ارادہ تو بس یہ ہے کہ ہمارے خصم نے ہم پر کتنا ظلم کیا ہے اسے بیان کروں۔‘‘
اسی قسم کی بات انھوں نے باب المتمتع الذی لا یجدھدیاً [1]میں بھی کہی ہے۔ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ جن کا شکوہ کر رہے ہیں ہمیں اس حوالے سے کچھ عرض نہیں کرنا کہ کس نے کتنا ظلم کیا؟البتہ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے فریق کے استدلال پر تو بہر نوع اعتراض کی کوشش کرتے ہیں،مگر اپنے مستدلات پر خاموشی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ ’ما ھکذا مذھبی‘ ’’یہ میرا طور طریقہ نہیں۔‘‘بڑے افسوس سے عرض ہے کہ ان کی اپنی اس وضاحتکے باوجود اصول بنالیا جاتا ہے کہ وہ جس سے استدلال کریں حسن درجہ سے کم نہیں۔ ؎
خود غرض شکلیں انھوں نے شائد دیکھی نہیں غالب
گر وہ آئینہ دیکھیں گے تو ہم ان کو دکھا دیں گے
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجاج بن ارطاۃ کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے۔ چنانچہ کتاب الحج میں ’حجاج عن عمروبن شعیب عن سعید بن المسیب‘ کی سند سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر نقل کیا ہے کہ ان سے ایک آدمی نے یوم النحرمیں پوچھا کہ میں نے حج تمتع کیا ہے نہ قربانی کی ،نہ روزہ رکھا، اب کیا کروں؟ تو انھوں نے فرمایا ایک دم (بکری) ذبحہ کرو۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایام تشریق میں روزہ رکھنے کا نہیں کہا۔ [2]
حالانکہ حجاج صدوق ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الخطأ والتدلیس ہے۔[3] حتی کہ وہ ضعفاء سے تدلیس کرتا ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مدلسین کے چوتھے مرتبہ میں اسے ذکر کیا ہے۔ اور اس مرتبہ کے مدلسین کے بارے میں مقدمہ طبقات المدلسین[4] میں کہا ہے ان کی معنعن
|