استعمال ہوا ہے۔ مگر صرف اِس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر کر نیچے زمین میں آئیں گے۔ عربی زبان میں نزول کا لفظ سادہ طور پر آنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، نہ کہ آسمان سے اترنے کے معنی میں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص۴۶) نزولِ مسیح سے متعلق مذکورہ بالا روایت کا ایک جزء بیان کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ایک روایت کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کے ظہور کے متعلق فرمایا: وإنہ نازل، فإذا رأیتموہ فاعرفوہ(سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم، باب ذکر الدجال)یعنی وہ آئیں گے۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو تم اُن کو پہچان لینا۔ اِس حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ پہچاننا ’’نزول،، کی بنیاد پر نہ ہو گا، بلکہ خود اُن کی شخصیت کو دیکھ کر ہو گا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص۵۱) خان صاحب نے مکمل حدیث کے درمیان سے صرف ایک جملہ نقل کیا ہے جبکہ روایت کا سیاق وسباق(contex)کہ جو اُن کی سطحی تاویل کی نفی کر رہاہے، اُسے اُنہوں نے بیان ہی نہیں کیا۔ اِس روایت میں نزول سے پہلے کے الفاظ یہ ہیں: ’’انبیاء آپس میں علاتی[باپ شریک] بھائی ہیں، ان کی مائیں [ شریعتیں] جدا ہیں جبکہ دین ایک ہے۔ اور میں(صلی اللہ علیہ وسلم!)لوگوں میں سے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور اُن کے مابین کوئی نبی نہیں ہو گزرا ہے، اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں۔ پس جب تم اُن کو دیکھو تو اُن کو پہچاننے کی کوشش کرو۔‘‘ ’نزول‘ کا معنی آنا بھی لے لیں تو بھی اِس روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُس مسیح کی بات کر رہے ہیں کہ جس کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کوئی نبی نہیں گزرا ہے اور وہ قطعی طور عیسیٰ ا بن مریم علیہ السلام ہی ہیں۔ مہدی کے بارے میں مستند روایات کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہلِ بیت میں سے ہوں گے، ایک رات میں اللہ تعالیٰ اُن کی اصلاح فرمائے گا، ملک عرب پر بادشاہت |