اِس قدر صریح روایات کے باوجود خان صاحب کا تاویلات کرنا باطنیہ کو پیچھے چھوڑنے کے مترادف ہے۔ 2۔خان صاحب کا کہنا ہے کہ مہدی یا مسیح عام انسانوں جیسا ایک مصلح ہو گا۔ اُن کا یہ دعویٰ بھی فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صریحاً خلاف ہے۔ جہاں تک مسیح کا معاملہ ہے تو اِس بارے میں قطعی ٔالدلالۃ نصوص موجود ہیں کہ نازل ہونے والے مسیح علیہ السلام، اللہ کے نبی ہوں گے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ((اَلْاَنْبِیَائُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ، وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ لِاَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ نَبِیٌّ، وَإِنَّہٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَاعْرِفُوْہُ رَجُلًا مَرْبُوْعًا إِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ، کَأَنَّ رَأْسَہٗ یَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ))(مسند أحمد : ۱۵؍۱۵۴) ’’ انبیاء آپس میں علاتی( باپ شریک)بھائی ہیں، اُن کی مائیں(شریعتیں)جدا ہیں جبکہ دین ایک ہے۔ اور میں(صلی اللہ علیہ وسلم!)لوگوں میں سے عیسیٰ ابن ریم علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور اُن کے مابین کوئی نبی نہیں ہو گزرا ہے، اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں۔ پس جب تم اُن کو دیکھو تو اُن کو پہچاننے کی کوشش کرو کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو سرخ وسفید رنگ میں درمیانے قد کے ہوں گے اور اُن پر دو ہلکے زرد رنگ کے کپڑے ہوں گے۔ گویا اُن کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں اگرچہ اُنہیں پانی نہ پہنچا ہو۔‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اِس روایت کو’صحیح‘ قرار دیا ہے۔(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۵؍۲۱۴) 3۔خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ روایات میں’ نزول، سے مراد آسمان سے نازل ہونا نہیں ہے بلکہ یہ مجرد ’آنے، کے معنی میں ہے۔خان صاحب کہتے ہیں: ’’ اِس طرح یہ ظاہر ہے کہ روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ مسیح کوئی ایسی شخصیت ہیں جو آسمان سے نازل ہوں گے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص۴۷) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ اِس سلسلے میں جو بات ہے، وہ صرف یہ ہے کہ روایتوں میں نزول اور بَعث کا لفظ |