کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِسی عمل کا کلمنیشن(culmination)سی پی ایس کی ٹیم ہے…گویا اَصحابِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن تھے توسی پی ایس کی ٹیم بعد کے تقریبا ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اَصحابِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس کی ٹیم میں جمع ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دور حاضر میں اَخوانِ رسول کا رول کر سکے۔بعد کے زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طور پر اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اَصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کو بننے والے گروہوں میں کسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: ستمبر ۲۰۰۶ء، ص۳۵) خان صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ میں صحابہ ] کے بعد کوئی بھی ایسی مذہبی تحریک یا جماعت موجود نہیں تھی جو ردِ عمل کی نفسیات سے خالی ہو ماسوائے اُن کی دعوتی ٹیم کے، وہ لکھتے ہیں: ’’موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی تحریکیں اٹھی تھیں مگر وہ اَخوانِ رسول کا درجہ نہیں پا سکتیں…موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں رد عمل کی تحریکیں تھیں، اُن میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس کا یہ کیس ہو کہ اِس کے رہنما نے ردِعمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہو کر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: ستمبر ۲۰۰۶ء، ص۴۰) حالانکہ سی پی ایس کی ٹیم کے سربراہ میں جس قدر ردِعمل کی نفسیات پائی جاتی ہیں شاذ ہی کسی مکتب فکر یا مذہبی جماعت کے رہنما میں ہوں گی۔ خان صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں جس غزوہ ہند کی بشارت دی ہے، اِس سے مراد اُن کی ٹیم کا دعوتی کام ہے: |