ہوتی ہیں۔ یہ تمام سزائیں عقلاً مستحسن نہیں ہیں لیکن سیکولر ریاستیں بھی اَمن واَمان کے قیام کے لیے اِن سزاؤں کا نفاذ کرتی ہیں۔ پس اگر ریاست ظلم کو بزور بازو نہ روکے گی تو ظلم معاشرے میں بڑھے گا نہ کہ ختم ہو گا۔ اب اگر ریاست کو یہ تعلیم دی جائے کہ وہ ’’دشمن سے محبت کرو،، کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مجرموں کے لیے سزاؤں کی بجائے محض وعظ ونصیحت کی مجالس قائم کرے تو بحر وبر میں فساد برپا ہو جائے گا۔ بالکل اِسی طرح اسلام نے جہاد کے دوران ظلم کے خاتمے اور اَمن واَمان کے قیام کے لیے انسانوں کے قتل جیسے قبیح فعل کو جائز قرار دیا گیا۔ اور بالفرض جس مقصد کے حصول لیے جہادو قتال کو جائز کہا گیا ہے اگر وہ مقصود ہی پور انہ ہو رہا ہویعنی ظلم ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہو تو ایسی صورت میں اِس جہاد وقتال کا جواز باقی نہ رہے گا۔ پس جہاد و قتال ہر ایسے فتنے،استحصال،کفر ،شرک یا عدوان کے ختم ہونے تک جاری رہے گا کہ جس سے دوسروں پر ظلم ہو رہا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ﴾(الأنفال: ۳۹) ’’اور ان(یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت)کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘ پس اِن آیات کامفہوم یہ ہے کہ جہاد و قتال اُس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے یاجب تککفر وشرک کے ظالمانہ اور استحصالی اقتدار کو ختم نہ کر دیا جائے۔ظاہری بات ہے کہ کفار و مشرکین کے اپنے عقیدے پر قائم رہنے یا اُس کے مطابق عبادات کرنے سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہوتی، لہٰذا اُن سے اِس معاملے میں اطاعت جبراً نہیں کروائی جائے گی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿لآَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ﴾(البقرۃ : ۲۵۶) ’’ دین [قبول کرنے میں]میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ اِس ضمن میں سورۃ التوبہ کی آیت ۲۹ بھی ملاحظہ کر لی جائے، اور اِسی بات کو قرآن حکیم میں دو مقامات پر بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے : ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ |