Maktaba Wahhabi

111 - 169
مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا﴾(النساء: ۱۲۷) ’’(اے مسلمانو!)اور تمہیں کیاہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے یہ کہہ رہے ہیں :اے ہمارے رب!ہمیں اِس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک ولی مقرر کر اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک مددگار بنا۔‘‘ ایک اور جگہ قرآن میں ایسے کفار سے دوستی اور حسن سلوک کر نے سے بھی منع فرمایا گیاہے جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ ۚ﴾(الممتحنۃ : ۹) ’’ اللہ تعالیٰ تو تم کو بس ان ہی لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر [تمہارے دشمنوں] کی مدد کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں اُنہیں فقہا ئے اسلام نے دو طرح سے تقسیم کیا ہے، ایک حسن لذاتہ اور دوسرے حسن لغیرہ۔حسن لذاتہ سے مراد ایسے احکامات ہیں جو کہ فی نفسہ اسلام میں مطلوب ہیں ،جبکہ حسن لغیرہ اُن احکامات کو کہتے ہیں جو فی نفسہ مطلوب نہ ہوں(أصول الفقہ الإسلامی:۱؍۱۳۰)۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام نے لڑائی جھگڑے کو فی نفسہ ناپسند قرار دیا ہے ،جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَاِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا))(صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر،باب کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا لم یقاتل أول النھار أخر) ’’ دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہو، لیکن اگر تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو پھر ڈٹ جاؤ۔‘‘ اسلام نے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے قتال کو فرض قرار دیا ہے اور وہ ظلم کا خاتمہ،عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ہے ،لہٰذا قتال حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ حسن لغیرہ ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں بطور قانون مختلف قسم کی سزائیں نافذ العمل ہیں۔ یہ سزائیں جرمانے اور قید وبند کی صعوبتوں سے لے کر پھانسی کی سزا پر منتج
Flag Counter