ایسے لگتا نہیں ؛ کیونکہ یہ لوگ اہل کتاب باقی نہیں رہے تھے۔
یہاں پر اس سے مقصود وہ لوگ ہیں جو ظاہر میں اہل کتاب میں سے تھے۔لیکن درحقیقت وہ مؤمن تھے؛ اوروہ ان امور کو بجالانے پر قادر نہیں تھے جو امور مہاجرین و مجاہدین صحابہ بجالاتے تھے؛ جیسے آل فرعون کا مؤمن ۔ اگرچہ وہ آل فرعون میں سے تھا۔ لیکن وہ مؤمن تھا۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِِیْمَانَہٗ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّی اللّٰہُ وَقَدْ جَائَکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ﴾ [غافر ۲۸]
’’ اور فرعون کی آل میں سے ایک مومن آدمی نے کہا جو اپنا ایمان چھپاتا تھا، کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے ’’میرا رب اللہ ہے ‘‘حالانکہ یقیناً وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘
اگرچہ وہ آل فرعون میں سے تھا۔ لیکن وہ مؤمن تھا۔ یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے۔ ان میں اہل ایمان بھی ہیں ؛ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ اَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾[آل عمران ۱۱۰]’’ اور ان کے اکثر نافرمان ہیں ۔‘‘
اس سے پہلے ارشاد فرمایا:
﴿ وَ لَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ ﴾[آل عمران ۱۱۰]
’’ اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:﴿ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾
’’ان میں سے کچھ مومن ہیں اور ان کے اکثر نافرمان ہیں ۔‘‘
پھر آگے چل کر ارشاد فرمایا:
﴿ لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذًی ﴾ [آل عمران ۱۱۱]
’’وہ ہرگز آپ کو کوئی نقصان نہیں دے سکتے ؛ مگر تھوڑی سی تکلیف ۔‘‘
یہ ضمیر ان تمام کی طرف لوٹتی ہے؛ اکثر کی طرف نہیں ؛ اسی لیے فرمایا:
﴿ وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ ﴾[آل عمران ۱۱۱]
’’ اور اگروہ تم سے لڑیں تو تمہیں پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں اور پھر ان کی کوئی مدد نہ کی جائے۔‘‘
وہ کبھی اس حال میں بھی لڑسکتے ہیں کہ ان میں کوئی ایسا مؤمن ہو جو اپنا ایمان چھپا رہا ہو۔لیکن وہ معرکہ کے موقعہ پر ان کے ساتھ موجود ہو؛ اس کے لیے ہجرت کرنا ممکن نہ ہو۔ اور اسے لڑنے پر مجبور کیا گیا ہو۔ وہ بروز قیامت اپنی نیت کے
|