نہ بھی ہوں ۔
آٹھویں وجہ:....ان سے پوچھا جائے گا کہ : ایسے جائز کیوں نہیں ہے کہ دین کی حفاظت اور تبلیغ کے لیے ہر گروہ کے اس کے تحمل شریعت کے مطابق معصوم قرار دیا جائے۔ مثلاًقراء حفظ قرآن اور اس کی تبلیغ میں معصوم ہیں ۔ اسی طرح محدثین احادیث صحیحہ کے حفظ و ابلاغ میں معصوم ہیں ۔ اور فقہاء فہم کلام اور استدلال اور احتجاج میں معصوم ہیں ۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر اﷲتعالیٰ نے ہمیں ایک معدوم امام سے بے نیاز کر دیا ہے۔
نویں وجہ:....اگر شریعت کے حفظ و ابلاغ کا کام ایک معصوم ہی انجام دے سکتا ہے جو دوسرے معصوم سے اخذ کر رہا ہو تو یہ کیابات ہے کہ چار سو ساٹھ سال کے طویل عرصہ میں کسی نے امام منتظر سے ایک مسئلہ بھی نہیں سیکھا؟ اب سوال یہ ہے کہ پھر شیعہ نے قرآن کریم اور دین کا علم کہاں سے حاصل کیا ؟اور کیا یہ ممکن نہیں کہ جو قرآن وہ پڑھ رہے ہیں وہ اس قرآن سے الگ ہو جو نازل ہوا تھا؟بلکہ اس میں کلام اللہ کا ایک حرف بھی نہ ہو [جیسا کہ بعض شیعہ کا عقیدہ ہے ]۔
٭ ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور[ حضرت علی رضی اللہ عنہ ]کے حالات اور احکام سے کیوں کر آگاہی ہوئی۔ جب کہ بذات خود تم نے کسی معصوم سے اس ضمن میں کچھ نہیں سنا۔اس لیے کہ وہ امام یا تو مفقود ہے یا پھر معدوم ہے۔
اگر شیعہ کہیں کہ: ہمارے نزدیک ائمہ معصوم سے اس کی نقل تواتر کی حد تک معروف ہے۔
تو ہم کہیں گے کہ جب تمہارے ائمہ کا تواتر تحفظ شرع کا موجب ہے تو پوری امت کا تواتر اس کی نسبت اولیٰ و احریٰ ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے نہ کہ ایک شخص کی نقل کو دوسرے سے معتبر تسلیم کیا جائے۔
شیعہ کہتے ہیں : ان کے پاس قبل از امام منتظرسے قبل کے لوگوں سے منقول جو موروثی علم موجود ہے ؛ اس نے انہیں بے نیاز کردیا ہے کہ امام منتظر سے کوئی نئی چیز حاصل کریں ۔ [اگر واقعی ایسے ہی ہے ] تو پھر جو کچھ امت کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول علم موجود ہے [ اور جس کی صحت بھی ثابت ہے ]یہ علم آپ کو دوسرے لوگوں سے علوم اخذ کرنے سے بے نیاز کیوں نہیں کردیتا؟ جب یہ لوگ یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ بارہ امامو ں میں سے کوئی ایک بھی جو روایت نقل کرتا ہے ؛ وہ ان کے ہاں ثابت ہوتی ہے تو پھر جو روایات باقی امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہے ؛ وہ ثابت کیوں نہیں ہوسکتی؟
یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ مجموعی طور پر امت رافضیوں سے کئی گنا زیادہ اور بڑھ کر ہے۔ اوروہ رافضہ کی نسبت دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ میں بڑے حریص بھی ہیں ۔ اور رافضیوں کی نسبت اقوال کی حفاظت اور ان کے نقل کرنے پر زیادہ قدرت بھی رکھتے ہیں ۔ یہ بات کسی بھی ادنی معرفت رکھنے والے انسان پر بھی مخفی نہیں ۔
دسویں وجہ:....شیعہ مصنف سے کہا جائے گا کہ تمہارا یہ قول کہ ’’ وحی منقطع ہوجانے کی وجہ سے نصوص تفاصیل احکام سے قاصر ہیں ۔‘‘اس سے تم کیا مراد لیتے ہو؟ کیا تمہاری مراد کسی خاص جزئیہ کے بیان میں قصور یا کمی ہے ؟ یا پھر تمہاری
|