چوتھی وجہ :....اگر اﷲتعالیٰ ایسا امام پیدا نہ کرتا تو وہ شر پیدا نہ ہوتا جیسا شر دیکھنے میں آرہا ہے۔جب اس کے وجود سے کسی شر کو ختم نہیں کیا جاسکا ؛ حتی کہ یہ کہا جائے کہ اس [امام ]کے وجود سے اس[شر] کا ختم کرنا ممکن ہوا۔بلکہ اس کے وجود نے جمہور کو تکذیب پر بر انگیختہ کیا؛ اور انہوں نے شیعہ سے عداوت کی ٹھان لی۔انہوں نے اس امام پر اور اس کے ماننے والوں پر ظلم کیا؛ اور اتنا شر و فساد پیدا ہوا جس کو صحیح معنوں میں اللہ ہی جانتا ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ امام معصوم ہے۔اور اگر بالفرض تسلیم کرلیں کہ : حضرت علی معصوم نہیں ‘ اور نہ ہی باقی بارہ اماموں میں سے کوئی ایک معصوم ہے؛ او رتینوں خلفاء بھی مقرر نہ ہوئے ہوتے؛ بنو امیہ اور بنو عباس کو حکومت بھی نہ ملی ہوتی تو پھر بھی اس [نظریہ] میں [ بذات خود] شر و فساد موجود ہے۔ یہ اس صورت میں ہے اگر ان ائمہ کو معصوم تسلیم کر لیا جائے۔معصوم ماننے کی صورت میں ان میں سے کسی ایک نے بھی کوئی شر ایسے ختم نہیں کیا مگر جیسے دوسرے غیر معصوم لوگوں نے ختم کیا ؛ تو معاملہ یہاں پہنچا کہ ان کے معصوم ہونے [ کے عقیدہ ]کی وجہ سے شروفساد ہی پیدا ہوا ‘ کوئی خیر و مصلحت حاصل نہیں ہوسکی۔
حکیم کے متعلق کیسے یہ بات جائز سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ کسی چیز کوپیدا کرے تاکہ اس سے خیر و بھلائی حاصل ہو؛ مگر پھر اس سے سوائے شر کے کوئی بھلائی وخیر حاصل نہ ہو؟
٭ [شیعہ کی جانب سے ] اگر یہ کہاجائے کہ : یہ شر لوگوں کے اس امام پر ظلم کی وجہ سے حاصل ہوا۔‘‘
٭ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: وہ حکیم جس نے اسے پیدا کیا ‘ جب اس نے اس غرض سے پیدا کیا تھا تاکہ اس سے ظلم ختم ہو؛ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جب وہ اسے پیدا کرے گا تو ظلم اور بڑھ جائے گا ؛ تو پھر یہ حکمت کی بناپر تخلیق نہیں ہوئی ‘ بلکہ اس میں حماقت کا کردار ہے ۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کو ئی انسان اپنا بیٹا اصلاح کی غرض سے کسی ایسے انسان کے سپرد کرے جو اسے نیکی اور اصلاح کا حکم دے ؛ مگر اس کے ساتھ وہ جانتا بھی ہوکہ وہ اس کی بات نہیں مانے گا ‘ بلکہ پہلے سے زیادہ بگڑ جائے گا ۔ تو کیا یہ کسی دانشمند کا فعل ہوسکتا ہے ؟
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان راستے میں سرائے تعمیر کرائے تاکہ گزرنے والے قافلے یہاں پر پناہ حاصل کریں ۔اور اپنے آپ کو کفار و رہزنوں سے بچاسکیں ۔اور اسے پتہ ہو کہ جب وہ اس تعمیر کو مکمل کرلے گا تو کفار اس کو اپنا قلعہ بنا لیں گے؛ اور راہزن اسے اپنا ٹھکانہ بنالیں گے۔
دوسری مثال اس انسان کی ہے جو کسی آدمی کو مال دے تاکہ وہ مجاہدین اور سپاہیوں میں تقسیم کرے ‘ اور اس کو یہ علم بھی ہو کہ [جب مال اس انسان کے ہاتھ میں آجائے گا تو] اسے کفار اور برسر پیکار لوگوں پر اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں پر خرچ کرے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان رافضہ قدریہ نے یہ حجتیں معتزلہ قدریہ کے اصولوں سے اخذ کی ہیں ۔ جب معتزلہ اللہ تعالیٰ پر اصلاح اور اصلح کو واجب قرار دیتے تھے ‘ تو انہوں نے بھی ان سے یہ عقیدہ اخذ کرلیا ۔ اور ان [معتزلہ ] کے اللہ تعالیٰ پر واجب قرار دینے کی اصل یہ ہے کہ : وہ ہر مکلف کیساتھ ایسا سلوک کرے جو اس کے دین ودنیا کے اعتبار سے اصلح
|