اور انہیں اموال سے نوازا ہے تاکہ وہ اپنے اموال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت پر استعانت حاصل کریں ۔ پس جب کفار نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا؛ اورغیر اللہ کی عبادت کرنے لگے تو اس مال کے مستحق نہ رہے۔تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کے لیے مباح کردیا کہ وہ انہیں قتل کریں اور ان کے اموال اپنے قبضہ میں کرلیں ۔ تو فئے وہ مال ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو واپس کردیا ہے۔ کیونکہ اب یہی اس مال کے مستحق ٹھہرے تھے۔ پس جو بھی مال کفار سے لیا جائے؛ حتی کہ مال ِ غنیمت کوبھی فئے کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر فرمایا تھا:’’ جو مال اللہ تعالیٰ نے تمہیں فئے میں دیا ہے؛ اس میں میرا حصہ صرف خمس ہے؛ اور یہ خمس بھی تم میں ہی تقسیم کردیا جاتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں :
﴿وَمَا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلاَ رِکَابٍ﴾ [الحشر ۶]
’’اور جو اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایا تو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔‘‘
اوریہ بھی ارشاد فرمایا کہ:
﴿مَا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرَی﴾ [الحشر ۷]
’’ جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا ۔‘‘
تو اس سے عند الاطلاق وہ مال مراد لیا جانے لگا جو کفار سے جنگ کئے بغیر حاصل ہو جائے۔
جمہور علماء کے نزدیک مال فئے میں خمس نہیں ہوتا۔ جیسے کہ امام مالک؛ امام ابو حنیفہ اور احمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے اورتمام سلف صالحین نے اسے اختیار کیا ہے۔
جب کہ امام شافعی ؛ خرقی؛ اور امام احمد رحمہم اللہ کے اصحاب میں سے ان کے موافقین کہتے ہیں : اس سے بھی خمس نکالا جائے گا۔ جب کہ جمہور کا قول صواب اور حق پرہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء سے ثابت سنت یہی بتاتی ہیں کہ انہوں نے مال فئے سے کبھی بھی خمس نہیں نکالا۔ بلکہ بنی نضیر کے اموال پہلا فئے تھے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی خمس نہیں نکالا۔ بلکہ آپ نے بدر کی غنیمت سے خمس نکالا ہے؛ اور ایسے ہی خیبراور حنین کے اموال سے بھی خمس نکالا تھا۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین جزیہ اور خراج سے خمس نہیں نکالا کرتے تھے۔
یہاں پر اختلاف کا منشاء یہ ہے کہ جب آیت خمس اور آیت فئے کے الفاظ ایک ہی تھے؛ تو لوگوں کے مابین فہم قرآن میں اختلاف واقع ہوا۔ پس ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آیت خمس کا تقاضا ہے کہ خمس کو بھی برابر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہ امام شافعی ؛ أحمد اور داؤد ظاہری کا مسلک ہے۔ اس لیے کہ ان کا خیال ہے کہ قرآن کے الفاظ سے ظاہر یہی ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ آیت فئے کے الفاظ آیت خمس کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں ۔
جب کہ بعض دوسرے علماء کا خیال ہے کہ سارے کا سارا فئے خمس کے ان پانچ مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔یہ ابو داؤد بن علی اور اس کے اتباع کاروں کا قول ہے۔ہمارے علم کے مطابق اس سے قبل کسی مسلمان نے یہ بات نہیں کہی ۔
|