Maktaba Wahhabi

450 - 702
یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر علماء کا مذہب ہے۔ گروہ کا کہنا ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ خمس ولی امر کے قرابت داروں کا حق ہے۔ پس ہر ولی امر اپنے قرابت داروں کو دے گا۔ یہ ایک گروہ کا قول ہے۔ ان میں سے حضرت حسن اور ابو ثور رحمہما اللہ بھی ہیں ۔ میرا خیال یہی ہے۔اور یہ قول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ : خمس کو بھی برابر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا مشہور قول ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ خمس پر امام کا اختیار ہے ؛ وہ اپنے اجتہاد سے خود اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے کاموں میں تقسیم کرے گا؛ جیسے فئے کا مال تقسیم کیا جاتا ہے۔یہ اکثر سلف صالحین اہل علم کا قول ہے۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز اور اہل مدینہ جیسے امام مالک و غیرہ کا مذہب بھی یہی ہے۔اور امام احمد سے بھی دوسری روایت میں یہی منقول ہے۔ یہ صحیح ترین قول مانا جاتا ہے جس پر کتاب و سنت کے دلائل موجود ہیں ۔ اور ہم نے دوسرے مقام پر اس کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔پس خمس اور مال فئے کا مصرف ایک ہی ہے۔ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دیوان ِ عطیات میں خمس اور عطیات سبھی کچھ تقسیم ہوا کرتا تھا۔ باقی رہ گیا کہ جو کچھ روافض نے خرافات گھڑلی ہیں ؛کہ خمس مسلمانوں کے اموال سے وصول کیا جائے گا؛ اور پھر وہ اس کو دیا جائے گا جسے وہ اپنے امام معصوم کا نائب سمجھتے ہیں ؛ یا کسی دوسرے کو۔ یہ بات صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہی۔ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور نہ ہی کسی دوسرے نے ؛ اور نہ ہی تابعین میں سے کسی ایک نے ایسی بات کہی ہے؛ اور نہ ہی اہل بیت میں نہ ہی بنی ہاشم یا کسی دوسرے نے ۔ جتنے بھی لوگوں نے یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ یا اہل بیت رضی اللہ عنہم کے کسی عالم کی طرف منسوب کرکے نقل کی ہے؛ جیسے حضرت حسن اور حسین بن علی ؛ اور ابو جعفر الباقر ؛ اور جعفر بن محمد رضی اللہ عنہم کی طرف؛ تویقیناً اس نے ان حضرات پر جھوٹ بولا ہے۔ اوریہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تواتر کے ساتھ معلوم شدہ سیرت کے خلاف ہے۔ بیشک آپ چار سال اور کچھ مہینے خلیفہ رہے۔ مگر آپ نے مسلمانوں کے اموال میں سے کچھ بھی ایسی چیز وصول نہیں کی۔بلکہ آپ کے عہد حکومت میں خمس نام کی کوئی چیز تقسیم ہی نہیں ہوئی۔جب کہ مسلمانوں کے اموال سے نہ ہی آپ نے خمس وصول کیا اور نہ ہی کسی دوسرے نے ۔ جب کہ کفارسے جب غنیمت آتی تھی تو ان کے اموال سے کتاب و سنت کے مطابق خمس تقسیم ہوا کرتا تھا۔ آپ کے دور میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ جنگ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بلکہ وہ اپنے اختلافات اور جنگوں میں ہی مصروف رہے؛ ان سے فرصت ہی نہیں ملی۔ ایسے ہی یہ بات بھی ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اموال سے کوئی خمس وصول نہیں کیا؛ اور نہ ہی آپ نے کبھی کسی ایک مسلمان سے کسی خمس کا مطالبہ کیا۔ بلکہ آپ نے سے صدقات [زکوات
Flag Counter