بلکہ صحیحین میں حدیث شفاعت میں آتا ہے کہ سب کے سب رسول یہ کہیں گے: ’’بے شک آج میرا رب ایسے غضب میں ہے کہ اس سے قبل وہ ایسا غضب ناک کبھی نہیں ہوا اور نہ آئندہ کبھی ایسا غضب ناک ہی ہو گا۔‘‘
صحیحین میں حضرت خالد بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
’’(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رات کو برسنے والی بارش کے بعد فجر کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے (فارغ ہو کر) پلٹے تو فرمایا: ’’کیا تم لوگ جانتے ہو کہ آج رات تمھارے رب نے کیا فرمایا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’رب تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’میرے بندوں میں سے کسی نے مجھ پر ایمان لا کر صبح کی ہے تو کسی نے میرا انکار کر کے صبح کی ہے۔‘‘ پس جس نے تو یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارث ہوئی ہے سو وہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے اور جس نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، سو وہ میرے ساتھ کفر کرنے والا اور ستاروں پر ایمان رکھنے والا ہے۔‘‘[1]
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ’’بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب آتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبت کرنے لگتا ہوں ۔‘‘[2]
قرآن و حدیث میں اس کی بے پناہ تفصیل مذکور ہے۔ ہم نے ’’درء تعارض العقل و النقل‘‘ میں اس پر مفصل کلام کر دیا ہے۔
رب تعالیٰ نے قرآن کریم کے دس سے زیادہ مواقع پر ذکر فرمایا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو پکارا۔ اس پر جملہ اہل زبان اور سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ نداء اور پکارنا آواز کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ رب تعالیٰ اس بات کی خبر دیتے ہوئے کہ جب موسیٰ علیہ السلام درخت کے پاس آئے تو رب تعالیٰ نے آواز دی، فرماتے ہیں :
﴿فَلَمَّا جَآئَ ہَا نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (النمل: ۸)
’’تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے آواز دی گئی کہ برکت دی گئی ہے اسے جو آگ میں ہے اور جو اس کے
|