Maktaba Wahhabi

315 - 702
’’اے کپڑے میں لپٹنے والے! رات کو قیام کر مگر تھوڑا۔‘‘ اب کوئی تو یہ کہتا ہے کہ یہ عربی قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے اور کوئی یہ کہتا ہے کہ اللہ کے کلام میں تعدد اور تبعض نہیں ہے لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ اچھا جب رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا توکیا اس سارے کو سمجھایا تھا یا بعض کو؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنا سارا کلام سمجھا دیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام علم الٰہی کے جاننے والے بن گئے اور تم یہ کہتے ہو کہ بعض کو سمجھایا تھا تو کلام اللہ میں تبعض پیدا ہو گیا۔ حالانکہ تمھارے نزدیک کلام اللہ ایک ہی ہے اس میں تبعض نہیں ۔ اسی طرح تمھارے نزدیک یہ عربی قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے، البتہ یہ اس کی تعبیر ہے۔ تب پھر یہ قرآن اللہ کے سارے کلام کی تعبیر ہے؟ اور یہ بات ممتنع ہے، یا بعض کلام کی تعبیر ہے؟ تو یہ بھی ممتنع ہے۔ غرض اس بات کی تفصیل میں جائیے تو بات بے حد لمبی ہو جائے گی۔ پھر دوسری جماعت نے جب دیکھا کہ یہ قول تو فاسد ہے، تو انھوں نے یہ قول کر لیا: ’’یہ قرآن قدیم ہے اور یہ کہ یہ حروف، یا حروف اور اصوات ہے اور یہ عربی قرآن اللہ کا کلام ہے جیسا کہ خود کتاب و سنت اور مسلمانوں کا اجماع اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مواقع پر یہ امر مذکور ہے کہ یہ اتارا ہوا کلام قرآن ہے اور وہ کلام اللہ ہے اور عربی زبان میں ہے اور اس قول کے قائلین نے ان لوگوں پر لعنت ملامت کرنا شروع کی جو اس کے کلام اللہ ہونے کے منکر تھے۔ لیکن خود ان لوگوں نے دو قرآن ثابت کیے: (۱) قدیم اور (۲) دوسرا مخلوق۔ اور ان دو قرآنوں کے اثبات کے ذریعے ان منکروں پر خوب طعن و تشنیع کی۔ پھر ان منکروں نے ان لوگوں سے کہا: جب تم لوگوں نے قرآن عربی کو ۔جو کہ قدیم ہے۔ کلام اللہ ٹھہرایا؛ تو اس کا مخلوق ہونا لازم آیا، تب پھر تم معتزلہ کے ہم نوا بن گئے۔ کیونکہ تمھارا یہ قول کہ قرآن عربی قدیم ہے عقل صریح کے نزدیک ممتنع ہے۔ جس کا اسلاف میں سے کوئی بھی قائل نہیں اور ہم اور سب فرقے تم لوگوں کے اس قول پر انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمھارا گھڑا ہوا بدعتی قول ہے جس کی بنا پر تم لوگوں نے معقول و منقول دونوں کی مخالفت کی ہے۔ وگرنہ با معنیہ کے بعد آنے والی معین سین کیونکر قدیم اور ازلی ہو سکتی ہے اور یکے بعد دیگرے آنے والے حروف کیونکر قدیم ہو سکتے ہیں اور اس خاص وقت کی آواز کیونکر قدیم ہو سکتی ہے؟ یہ ائمہ اربعہ وغیرہ میں سے کسی کا بھی قول نہیں ۔ اگرچہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے بعد متاخرین اصحاب نے یہ قول اختیارکیا ہے۔ ابن سالم اور ان کے اصحاب اور اہل کلام و حدیث کی ایک جماعت نے بھی یہ قول اپنایا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کا شمار بھی اسلاف میں نہیں ہوتا۔ اگرچہ شہرستانی نے ’’نہایۃ الاقدام‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ یہ اسلاف اور حنابلہ کا قول ہے۔ لیکن نہ تو یہ اسلاف کا قول ہے، نہ امام احمد کا، نہ ان کے قدیم اصحاب کا اور نہ جمہور کا ہی یہ قول ہے۔
Flag Counter