سے تشبیہ دی ہے کہ ایسی لکڑی ناپسندیدہ ہی ہوتی ہے چاہے جتنی بھی بڑی ہو۔ یہی صورت اور قلب کا معاملہ ہے۔ البتہ بسا اوقات صورت ایمان اور عمل صالح میں معاون بن جاتی ہے جیسا کہ مال اور قوت۔ تب پھر جو آدمی ان چیزوں سے ایمان و طاعت میں مدد لیتا ہے اور معاصی سے بچتا ہے، تو اس کا جمال بھی اللہ کو محبوب ہو گا اور قوت اور مال بھی اور یہی اس کا وہ اصل جمال ہے جو رب تعالیٰ کو محبوب ہے چاہے بظاہر وہ سیاہ فام ہی ہو اور اگر وہ اس جمال کو اپنائے گا جو رب تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے تو اس کی یہ تزئین و تجمیل بھی عند اللہ محبوب ہو گی۔
غرض یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رب تعالیٰ کو کیا محبوب اور پسند ہے جس سے بندوں کو اجر ملتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ بات معلوم ہے کہ مطلق ارادہ میں اور لوگوں میں موجود محبت میں فرق ہے۔ انسان ہر اس بات کا ارادہ کرنے والا ہے جو وہ اپنے اختیار سے کر سکتا ہے۔ چاہے وہ فعل اس کے نزدیک مبغوض اور مکروہ ہی ہو اور آدمی ایسی بات کا ارادہ محبوب شے تک پہنچنے کے لیے کرتا ہے، جیسے مریض کہ جو صحت کی طلب میں کڑوی اور ناپسندیدہ دوا بھی اپنے اختیار و ارادہ سے کھاتا ہے چاہے اسے وہ دوا کھانے میں تکلیف ہی ہوتی ہو۔ کیونکہ یہ عافیت کا وسیلہ ہے جو اسے محبوب ہے اور رنج و الم کے زوال کا بھی وسیلہ ہے۔
اب جہمیہ اور قدریہ اللہ کی مشیت اور محبت میں فرق نہیں کرتے کیونکہ یہ رب تعالیٰ کے لیے بعض امور مخلوق کے ساتھ محبت کو ثابت نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک رب تعالیٰ کا بندے کی توبہ سے خوش ہونا بھی ثابت نہیں ۔ اس بات کا پہلا منکر جعد بن درہم تھا جسے خالد بن عبداللہ القسری نے (عین عید قربان کے دن عیدگاہ میں ) یہ کہہ کر ذبح کر دیا تھا کہ ’’تم لوگ اپنی اپنی قربانیاں کرو، اللہ تمھاری قربانیاں قبول کرے، البتہ میں جعد بن درہم کو ذبح کر کے اس کی قربانی کر رہا ہوں کیونکہ یہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام نہیں کیا اور ابراہیم علیہ السلام کو خلیل نہیں بنایا بے شک رب تعالیٰ جعد بن درہم کی باتوں سے بے حد بلند و برتر ہے۔‘‘ پھر منبر سے اتر کر جعد کو ذبح کر ڈالا۔
کیونکہ خُلَّت یہ محبت کے تابع ہے۔ اب جو سرے سے محبت ہی کا منکر ہو اس کے نزدیک خُلَّت کہاں سے ثابت ہو گی، لہٰذا جس کے نزدیک اللہ نہ محبت کرتا ہے اور نہ اس سے محبت کی جاتی ہے، اس کے نزدیک اللہ کا کوئی محبوب و خلیل بھی نہ ہو گا۔ جبکہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے اس اصل کو ثابت کیا ہے کہ ’’رب تعالیٰ کو بعض امورِ مخلوقہ محبوب ہیں اور پسند ہیں اور بعض امور مبغوض اور ناپسند ہیں ، اور یہ کہ بندوں کے بعض اعمال اسے پسند ہیں اور بعض ناپسند ہیں ۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْo﴾ (محمد ۲۸)
’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
|