Maktaba Wahhabi

247 - 702
پھر احسن القصص کے کلمات کو ’’کسر‘‘ کے ساتھ بھی قراء ت کیا گیا ہے۔ تب پھر یہ امر صرف قصۂ یوسف علیہ السلام کے ساتھ ہی خاص نہ ہو گا۔ بلکہ رب تعالیٰ کا بیان کردہ ہر قصہ ’’احسن‘‘ ہی ہو گا۔ رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’رب تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے‘‘ تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے کہ رب تعالیٰ کو کون سے اعمال محبوب اور کون سے غیر محبوب ہیں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو فرمایا تھا کہ ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ جہنم میں داخل نہ ہو گا۔‘‘ یہ بات معلوم ہے کہ تکبر بندے کے کسب سے ہے اور یہ اس کی قدرت و مشیت کے تحت داخل ہے، جو ممنوع ہے اور حکم اس کی ضد (یعنی عاجزی و انکساری اختیار کرنے) کا ہے۔ سائل دراصل اس بات سے اندیشہ کر رہا تھا کہ مبادا یہ تزئین و آرائش مذموم اور ممنوع کبر میں داخل ہو، اسی لیے اس نے یہ عرض کیا تھا کہ اسے اپنے کپڑوں اور جوتوں کا خوبصورت ہونا پسند ہے۔ آیا یہ وہی ممنوع و مذموم کبر تو نہیں ؟ کیونکہ جوتوں اور کپڑوں کا اچھا ہونا ایسا فعل ہے جو بندے کے کسب و فعل سے حاصل ہوتا ہے اور یہ ایسا فعل نہیں جو اس میں اس کے کسب کے بغیر پیدا ہوا ہو جیسے اس کی صورت کہ اس کی تخلیق میں آدمی کے کسب و فعل کا کوئی دخل نہیں ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سائل سے ارشاد فرمایا کہ ’’رب تعالیٰ خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند بھی فرماتا ہے۔‘‘ یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کو مبغوض کبر اور محبوب جمال کے درمیان فرق واضح فرما دیا۔ یہ بات معلوم ہے کہ رب تعالیٰ جب ایک شخص کو جسم و قوت اور عقل و ذکاء وغیرہ جیسی صفات میں ، دوسرے سے افضل پیدا فرماتا ہے تو یہ اس دوسرے کے عنداللہ مبغوض ہونے کی دلیل نہیں ہوتا کیونکہ یہ باتیں بندے کے اختیار میں داخل نہیں ۔ بلکہ یہ باتیں اس میں اس کے اختیار کے بغیر پیدا کی گئی ہیں ۔ بخلاف اس کے دوسرے پر تکبر کرنے کے، کیونکہ یہ اس کا وہ عمل ہے جو اللہ کو مبغوض ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا تھا: ﴿فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْہَا﴾ (الاعراف: ۱۳) ’’کیوں کہ تیرے لیے یہ نہ ہوگا کہ تو اس میں تکبر کرے۔‘‘ اسی طرح جس شخص کو رب تعالیٰ نے خوش رنگ، میانہ قامت اور خوبرو پیدا فرمای ہے تو یہ اس بندے کا کوئی ایسا فعل نہیں کہ جسے محمود یا مذموم کہا جا سکے یا اس پر ثواب و عقاب مرتب ہوتا ہو اور نہ اس پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت یا بغض کا مدار ہے۔ جیسے کسی کا سیاہ فام، کوتاہ قامت یا دراز قد وغیرہ ہونا محمود یا مذموم فعل ہے، نہ اس پر ثواب و عقاب کا ترتب ہے اور نہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت یا بغض کا مدار ہی ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر اور نہ کسی سفید کو کسی سیاہ پر اور نہ کسی سیاہ کو کسی سفید پر کوئی فضیلت حاصل ہے مگر تقویٰ سے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ رب تعالیٰ نے ایمان سے خالی دلوں والے خوبرو اور جسیم و قوی منافقوں کو سوکھی اور بے ثمر لکڑیوں
Flag Counter