Maktaba Wahhabi

227 - 702
عبادت سے اس کے بعض واجبات کی نفی سے اس کے نام کی نفی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اب عبادت کامل بن کر باقی نہیں رہی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب سرے سے عبادت ہی باقی نہیں رہی۔ بلکہ نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بعض ایمان باقی ہے اور اسی باقی ایمان کی بدولت وہ جہنم سے نکلے گا۔ پھر بعض عبادات میں واجب ہوتے ہیں جیسے، حج میں ایک واجب ایسا بھی ہے کہ جس کے ترک سے حج ناقص رہ جاتا ہے اور تارکِ واجب گناہ گار بھی ہوتا ہے۔ اس سے حج کا اعادہ تو لازم نہیں آتا البتہ دم دے دینے سے اس واجب کی تلافی ہو جاتی ہے۔ جیسے جمرات کی رمی کہ اگر اس کی تلافی نہ کی جائے تو یہ واجب ذمہ میں باقی رہ جاتا ہے۔یہی حال ایمان کا ہے کہ گناہوں سے ناقص ہو جاتا ہے البتہ توبہ سے پھر مکمل ہو جاتا ہے۔ ہاں توبہ نہ کرنے سے ناقص ہی رہتا ہے اور بندہ گناہ گار بھی ہوتا ہے۔ پھر حج میں بعض افعال حرام بھی ہیں کہ جن کے ارتکاب سے حج ناقص ہو جاتا ہے البتہ باطل نہیں ہوتا۔ جیسے خوشبو لگانا، سلا لباس پہننا، کہ اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ البتہ صرف جماع ایک ایسا حرام فعل ہے جو حج کو فاسد کر دیتا ہے۔ اسی طرح صرف کفر محض ہی ہے جو پورے ایمان کو ختم کر دیتا ہے کہ اس کے ہوتے ہئے کچھ بھی ایمان باقی نہیں رہتا۔ ایسا کفر سب اعمال برباد اور اکارت کر دیتا ہے اور جو کفر اس سے کم درجے کا ہو، وہ بعض اعمال کو اکارت کرتا ہے جیسا کہ ’’آیت من و اذی‘‘ میں مذکور ہے کہ من و اذی اس صدقہ کو باطل کر دیتے ہیں ، ناکہ سب کے سب اعمال کو اور جو ’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کو ناپسند کرتے ہیں ، وہ کافر ہیں اور دل کے اعمال جیسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اللہ کا خوف وغیرہ کہ یہ سب ایمان میں سے ہے۔ اور ’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ سے کراہت کفر ہے اور ایمان کا سب سے مضبوط کڑا اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے بغض رکھنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ﴾(المجادلۃ: ۲۲) ’’تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔‘‘ اور سابق، مقتصد اور ظالم لنفسہ کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا﴾ (الرعد: ۲۳) ’’ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے۔‘‘ یہ ارشاد اس بات سے مانع نہیں کہ ظالم لنفسہ کو پہلے عذاب ہو اور بعد میں اسے جنت میں داخل کر لیا جائے ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یَصْلَاہَا اِِلَّا الْاَشْقٰیo﴾ (اللیل: ۱۵)
Flag Counter