رہتے ہیں ، پھر وہ کمی نہیں کرتے۔‘‘
اب جس شخص کو شیطان گمراہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے، نہ تو اسے اللہ ہی یاد آتا ہے اور نہ وہ دیکھتا ہی ہے۔ بھلا ایسا شخص متقی کیسے ہو سکتا ہے؟سورۂ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: ۳)
’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔‘‘
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابوذر! اگر سب کے سب لوگ اس آیت پر عمل کرنے لگیں تو یہ آیت انھیں کافی ہو جائے۔‘‘[1]
جب کوئی شخص طلاق کے معاملہ میں رب تعالیٰ کی حد سے تجاوز کر جاتا تھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے یہ فرماتے تھے کہ ’’اگر تو اللہ سے ڈرتا ہوتا تو اللہ تیرے لیے نکلنے کا راستہ اور آسانی پیدا فرماتے۔‘‘
یہ بات معلوم ہے کہ اس آیت میں تقویٰ سے مراد صرف شرک سے بچنا ہے۔ قرآن کریم کی آخری آیات میں سے ایک یہ بھی ہے، جس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۸۱)
’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اب کیا اس دن سے ڈرنا یہ صرف شرک کو چھوڑ دینے کا نام ہے؟ چاہے اس کے بعد وہ ہر حرام کا مرتکب ہوتا پھرتے اور ہر واجب کو ترک کرتا رہے؟ طلق بن حبیب کا قول ہے۔ جنھیں سعید بن جبیر مرجی کہا کرتے تھے کہ:
’’تقویٰ یہ ہے کہ تو رب تعالیٰ کے نور کی روشنی میں اس کی طاعت کرے، اس کی رحمت کی امید رکھے اور اس کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کر دے اور اس کے عقاب و عتاب سے ڈرے۔‘‘
غرض متقین وہ ہوتے ہیں جو نیکوکار، فرائض بجا لانے والے اور محارم سے بچنے والے ہوتے ہیں ۔ یہ وہ عالم علم ہے جسے ہر مسلمان نسل در نسل جانتا چلا آیا ہے اور قرآن و حدیث بھی اس بات کو مقتضی ہیں ۔
مرجئہ کہتے ہیں : ’’تمھارا اس آیت سے استدلال بھی درست نہیں ہے۔‘‘ ارشاد ہے:
﴿اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَo﴾ (السجدۃ: ۱۸)
|