Maktaba Wahhabi

211 - 702
ہیں جیسے ایک حنفی یا شافعی، یا مالکی یا حنبلی اور اپنے اصول و فروع کو اور اپنے مذہب کے اختلاف اور اس کے دلائل کو بہ نسبت دوسرے مذہب کے اختلاف و دلائل اور اصول و فروع کے، زیادہ تفصیل کے ساتھ جانتا ہے اور دوسرے مذہب کا علم اسے صرف اجمالی ہی ہوتا ہے۔ موصوف اشعری کی اہل سنت و حدیث کے مذہب سے معرفت بھی ایسی ہی ہے جبکہ وہ متکلمین کو اور اختلاف پر لکھنے والوں کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور وہ اپنے اصحاب جیسے قاضی ابوبکر، ابن فورک اور ابو اسحاق وغیرہ سے زیادہ اس کو جانتے ہیں ۔ جبکہ یہ مذکورہ علماء اس اختلاف کو ابو المعالی اور ان جیسے علماء اور شہرستانی سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شہرستانی اہل سنت و حدیث کے مذہب کی بابت جو ذکر کرتے ہیں وہ موصوف اشعری کی ذکر کردہ معلومات سے ناقص ہے۔ کیونکہ اشعری نقل و توجیہ دونوں کے اعتبار سے ان سب سے بڑے عالم ہیں ۔موصوف اس فقیہ کی طرح ہیں جو دوسرے فقہائے حدیث سے بڑا عالم ہوتا ہے حالانکہ وہ خود علمائے حدیث میں سے نہیں ہوتا۔ یا اس محدث کی طرح ہیں جو دوسرے محدثین سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے لیکن خود ائمہ فقہ میں سے نہیں ہوتا اور اس مقری کی طرح ہیں جو نحو و اعراب کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے لیکن خود ائمہ نحاۃ میں سے نہیں ہوتا یا اسے نحوی جیسے ہیں جو قرآن کو دوسرے نحویوں سے زیادہ جانتا ہے لیکن وہ خود ائمہ قراء میں سے نہیں ہوتا۔ اس کی نظائر بے شمار ہیں ۔ بہرحال اس مقام پر ہمارا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اختلاف کرنے والوں کی مذمت بیان کی ہے اور یہ قولی اختلاف کا بیان ہے۔ رہا عملی اختلاف تو وہ ہاتھ، تلوار، لاٹھی اور کوڑے وغیرہ کے ساتھ اختلاف ہے۔ اب خوارج، روافض اور معتزلہ ان دونوں قسم کے اختلافات کے ارتکاب میں داخل ہیں اور صرف دنیا کی جاہ و حشمت کے لیے لڑنے والے ملوک و سلاطین صرف دوسری قسم کے اختلاف میں داخل ہیں اور وہ لوگ جو علم میں کلام کرتے ہیں اور اپنے بدعتی اقوال کی دعوت نہیں دیتے اور اپنے مخالفین سے ہاتھ اور زبان سے لڑتے بھی نہیں ۔ یہی لوگ اہل علم ہیں ، ان کی خطا معاف ہو گی اور یہ مذموم اختلاف کرنے والوں میں سے بھی نہیں ۔ البتہ بعض امور میں ان کے جیوں میں خواہش یا عدوان یا کوتاہی داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ بے شک یہ ان کا گناہ ہے اور بندہ ہر امر میں صراطِ مستقیم کو لازم پکڑنے پر مامور ہے اور اس بات کی ہر نماز میں دعا مانگنے کو رب تعالیٰ نے ہمارے لیے مشروع قرار دیا ہے۔ بلاشبہ یہ سب سے افضل، سب سے زیادہ فرض اور ہر خیر کو سب سے زیادہ جامع دعا ہے کہ صراطِ مستقیم کی دعا مانگنے کا ہر بندہ محتاج ہے اسی لیے رب تعالیٰ نے ہر نماز میں یہ دعا مانگنا بندوں پر واجب کی ہے۔ کیونکہ اگرچہ بندے کو اجمالی ہدایت ملی ہوتی ہے جیسے اس بات کا اقرار کہ اسلام حق ہے اور رسول حق ہے لیکن پھر وہ بھی اپنے ہر قول و فعل اور اعتقاد میں تفصیلی ہدایت کا محتاج ہے جو اس کی نفی و اثبات، بغض و محبت امر و نہی اور مدحت و مذمت سب کو شامل ہے۔ بندہ ان سب امور میں اس بات کا محتاج ہے کہ رب تعالیٰ اسے صراطِ مستقیم کی ہدایت دے۔ کیونکہ یہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ہے جن پر رب تعالیٰ نے انعام کیا ہے اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں ۔
Flag Counter