Maktaba Wahhabi

210 - 702
موصوف اشعری اس باب میں قابل ستائش ہیں کہ انھوں نے معتزلہ کی رسوائیوں اور ان کے کلام کے تناقض و فساد اس طرح آشکارا کیا ہے کہ کسی دوسرے نے نہیں کیا۔ کیونکہ پہلے خود معتزلی تھے اور موصوف نے چالیس برس تک ابو علی الجبائی سے علم کلام پڑھا تھا۔ موصوف بڑے ذہین تھے اسی لیے اعتزال سے رجوع کر لیا پھر ان کے ردّ میں ایک مفصل کتاب لکھی اور صفاتِ باری تعالیٰ کے اثبات میں ابن کلاب کے طریق کی تائید کی۔ کیونکہ ابن کلاب کا طریق معتزلہ سے زیادہ کتاب و سنت کے قریب ہے۔ کیونکہ معتزلہ کسی اور طریق کو جانتے ہی نہ تھے۔ لہٰذا وہ کتاب و سنت، صحابہ و تابعین کے اقوال اور ائمہ کی تفسیر قرآن کو جانتے ہی نہ تھے۔ بلاشبہ خالص سنت کا علم تو اسی طریق سے ملتا ہے۔ اسی لیے موصوف اشعری معتزلہ کے مفصل ملاقات ذکر کرتے ہیں ، ہر ایک کا قول بیان کرتے ہیں اور ان کے چھوٹے بڑے ہر اختلاف کو عیاں کرتے ہیں جیسا کہ ابن ابی زید[1] نے اصحابِ مالک کے مقالات کو ذکر کیا ہے اور جیسے کہ امام قدوری رحمہ اللہ [2] نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب کے اختلافات کو مفصل ذکر کیا ہے۔ موصوف اشعری اس کتاب میں خوارج و روافض کے مقالات کو بھی ذکر کرتے ہیں ۔ البتہ یہ مقالات خود اربابِ مقالات سے یا ان کی کتابوں کے واقف کاروں سے نقل نہیں کیے۔ لیکن اس کے باوجود بھی بے حد مفصل ہیں ۔ موصوف ابن کلاب کا مقالہ بھی ان کی کتابوں کی خوب چھان بین کے بعد ذکر کرتے ہیں اور قرآن کے بارے لوگوں کے اختلاف کو متعدد کتب سے نقل کرتے ہیں ۔ پھر جب اہل حدیث و سنت کا مقالہ آتا ہے تو اسے مجمل ذکر کرتے ہیں اور اس کا بھی اکثر حصہ انھوں نے زکریا بن یحییٰ الساجی[3] سے لیا ہے۔ جبکہ بعض کو بغداد کے ان حنبلی علماء سے لیا ہے جنھوں نے ساجی سے اخذ کیا ہے۔ بھلا اب تفصیلی علم اور اجمالی علم میں بھی کوئی نسبت ہے؟ ایک اعتبار سیموصوف اس بات کے مشابہ ہیں کہ جیسے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو تفصیلاً جبکہ تورات اور انجیل کے علم کو اجمالاً جانتے ہیں اور وہ بھی دوسروں کی منقولہ باتوں سے اور موصوف ایسے ہی
Flag Counter