عصر کے وقت میں پاک ہوجائے تو وہ عصر اور ظہر دونوں نمازیں پڑھنے کی مامور ہے۔ اوراس کا شمار ظہر او رعصر کو اپنے وقت پر ادا کرنے والوں میں ہوگا۔ ایسے ہی اگروہ رات کے آخری حصہ میں پاک ہو تو وہ مغرب او رعشاء دونوں نمازیں پڑھے گی۔ مغرب اس کے حق میں ادا ٹھہرے گی؛ قضاء نہیں ہوگی۔ جیسے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثلاً حضرت عبدالرحمن بن عوف؛ اور ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ؛ اس کا حکم دیا کرتے تھے؛ اور کسی ایک صحابی سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ہے۔
یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں معروف سنت یہی تھی۔ بیشک ایسے واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے خلفائے راشدین کے عہد مسعود میں بھی پیش آئے تھے۔اور کتاب و سنت اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے معذور کے حق میں تین اوقات بتائے ہیں ۔
یہ بھی ایک عذر ہے ؛ اس میں امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ معذورکے حق میں وقت مشترک ہے۔ اسے جمع کی نیت کرنے کی کوئی حاجت نہیں ۔ اکثر علماء جیسے امام ابو حنیفہ ؛امام مالک اور امام اور ان کے پرانے اصحاب رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ جیسے خرقی رحمہما اللہ اور اس کے موافقین کا کہتے ہیں : قصر اور جمع میں نیت واجب ہے۔ جمہور علماء کہتے ہیں : نیت واجب نہیں ہے؛ نہ جمع کے لیے نہ انفراد کے لیے۔یہ امام مالک ‘ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے قدماء اصحاب کا مذہب ہے۔اور یہی بات درست بھی ہے۔ جیسا کہ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔
لیکن حائض [حیض والی]کا معاملہ واضح کرتا ہے کہ اس کے لیے ماموربہ نماز کا اس کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں پڑھنا نا ممکن ہی نہیں تھا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اسے دوسری نمازوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا؛ بھلے وہ حکم ایجابی ہو یا استحبابی ہو۔
اگر یہ کہا جائے کہ: بقیہ نمازیں تخفیفاً اس سے ساقط ہو جاتی ہیں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اگروہ اس نظریہ سے فوت شدہ نمازیں پڑھنا شروع کردے کہ وہ اس طرح سے نماز کا ثواب پائے گی؛تو ایسا کرنا مشروع نہیں ہیں ؛ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اس کے لیے ممکن ہے کہ جتنا بھی ممکن ہوسکے نوافل پڑھ لے۔ کیونکہ اس کی جو فرض نمازیں [اس بیماری کے دوران] رہ گئی ہیں ؛ یہ ان کے وقت میں ان کی مامورہی نہیں تھی۔اور فرض نمازیں صرف ان کے مامور بہ وقت میں ہی ادا ہوسکتی ہے۔ ان کا وقت ختم ہو جانے کے بعد ان کی ادائیگی جائز نہیں ۔ ہر وہ انسان جو نیند یا نسیان کی وجہ سے معذور ہو؛ یا اس سے کوئی خطاء ہوگئی ہو؛ تو ان کو حکم ہے کہ دوسرے وقت میں یہ نمازیں پڑھ لیں ۔ تو گویا کہ انہوں نے ماموربہ وقت میں ہی نمازیں ادا کی ہیں ۔ جیسے مسافر اور مریض اور حائض کو رمضان کے روزے بعد میں رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔جب کہ [بلا عذر ] رمضان میں افطار کرنے والے کے متعلق کہا گیا ہے کہ اگر وہ سارا سال بھی روزے رکھے؛ تب بھی اسے کفایت نہیں کریں گے۔
کہتے ہیں : اگر بھولے ہوئے انسان کو اسی وقت نماز پڑھنے کا حکم ہے جب اسے یاد آئے۔ اس سے پہلے اسے نماز
|