لیے یہی وقت ہے۔ اب اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ جیسے وہ انسان گنہگار ہوگا جو فوری واجب حکم کی ادائیگی میں تاخیر کرے۔ لیکن بعد میں بھی اس کا یہ فعل درست ہوگا۔ اور اگر مغرب کے بعد نماز عصر پڑھنے کا یہی حکم ہوتا تو پھر غروب آفتاب کے ساتھ اس کے وقت کو مقید کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔یہ فرمان گرامی:
((من أدرک رکعۃ مِن العصرِ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ))[سبق تخریجہ ]
’’جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر کی ایک رکعت پالی ؛ تو اس نے عصر کی نماز پالی ۔‘‘
کوئی معنی یا فائدہ نہ دیتا۔ بلکہ یہ اس فوری واجب کی طرح ہوتی جس میں تاخیر کردی جائے۔ یا پھر مغرب کی نماز کی طرح ہوتی ؛ جب اس میں عشاء تک کی تاخیر کردی جائے۔ یہ بات معلوم ہے کہ ایسا کرنا کبھی کبھار جائز ہی نہیں بلکہ سنت بھی ہوتا ہے؛ جیسے مزدلفہ کی رات ۔ جیسے عرفہ کے دن عصر کی نماز میں تقدیم کرکے ظہر کے ساتھ پڑھنا سنت متواترہ او راجماع مسلمین سے ثابت ہے۔
جب کہ عصر کی نماز مغرب کے بعد پڑھنے کی اجازت غیر معذور کو کبھی بھی نہیں دی گئی۔ جیسے مغرب کی نماز سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھنے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے: کوئی بھی حال ہو؛ تمام واجبات کو ترک کرکے نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔ اگر انسان کے لیے ممکن ہو کہ وہ تیمم کرکے مقررہ وقت میں بغیر قرأت کے نماز پڑھ سکتا ہو تو پڑھ لے؛ بھلے رکوع اور سجدہ بھی پوری طرح اطمینان سے ادا نہ کرسکے ۔یا قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ یا ننگے بدن ہی نماز پڑھنا پڑے۔اس کے لیے جیسے بھی ممکن ہو؛ اس کا ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اسے وقت کے بعد اتمام افعال کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں ۔ یہ امور کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور عام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔
پس اس سے معلوم ہو اکہ وقت تمام واجبات پر مقدم ہے۔ پس درأیں صورت جس نے بغیر قرأت کے نماز پڑھ لی؛یا جانتے بوجھتے بغیر سترہ [پردہ ؍رکاوٹ]کے نماز پڑھ لی؛ یا اس طرح کی دیگر کسی بھی حالت میں ؛ اب اگر اسے وقت کے بعد کہا جائے کہ وہ قرأت کے ساتھ اور سترہ رکھ کر نماز پڑھے؛ تو اسے اس چیز سے ادنیٰ کا حکم دیا جارہا ہے جو اس نے کردی ہے۔ پس اسی لیے جب انسان کے لیے ان دونوں احوال میں سے صرف ایک حال ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ نماز کو اپنے وقت پر بغیر قرأت اور بغیر سترہ کے ہی پڑھ لے؛ اور اس کا وقت نکل جانے تک کا انتظار نہ کرے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ترک نماز کے استدراک کا امکان باقی نہیں رہا۔ رہا معذور انسان ؛ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے امکانی وقت تک کی وسعت کی ہوئی ہے۔ پس جو کوئی نماز بھول جائے؛ یا نماز کے بعض واجبات بھول جائے؛ تو اسے جب بھی یاد آئے؛ وہ نماز پڑھ لے۔ اس کے حق میں اس کی ادائیگی کا وقت یہی ہے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ : اس کی نماز مقررہ وقت پر زیادہ کامل تھی۔
تو اس کا جواب یہ ہے: بالکل ؛ لیکن اس وقت نیند یا بھول کی معذوری کی وجہ سے اس پر واجب ہی نہیں ہوئی۔ اس پر نماز پڑھنا اسی وقت واجب ہوا ہے جب وہ بیدار ہو یا پھر اسے یاد آجائے۔ جیسے ہم حائض کے حق میں کہتے ہیں : اگر وہ
|