Maktaba Wahhabi

113 - 702
’’ہاں اتنا مال لے سکتی ہو جو تیرے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔‘‘[1] یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند کو شکایت کرنے سے نہ روکا تھا یہ فریاد مظلوم کی مثال ہے۔ خیر خواہی کے لیے غیبت کی مثال یہ حدیث ہے کہ چند آدمیوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام دیا تھا۔ انھوں نے جب اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا۔ ’’معاویہ رضی اللہ عنہ ایک مفلس آدمی ہے اور ابو جہم رضی اللہ عنہ عورتوں کو پیٹنے کا خوگر ہے، لہٰذا تم اسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح باندھ لو۔‘‘[2] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے جب خاوندکے بارے میں مشورہ طلب کیا تو آپ نے اس کو مشورہ دے دیا۔ یہ خیر خواہی کے نقطہ خیال سے تھا اور خیر خواہی ایک ضروری امر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا :’’دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا، اے اﷲ کے نبی! کس کی خیرخواہی؟ فرمایا : ’’اﷲ کی خیر خواہی، رسول کی خیر خواہی اور مسلم حکام اور عوام سے ہمدردی۔‘‘[3]یہ حدیث صحیح ہے۔ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنے میں غلطی کرتا ہو یا دانستہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی عالم پر جھوٹ باندھتا ہو یا دین کے عملی و اقتصادی مسائل میں غلط رائے کا اظہار کرتا ہو تو ایسے شخص پر علم و عدل اور خیر خواہی کی نیت سے نقد و جرح کرنے والا اﷲکے نزدیک ماجور ہو گا۔ خصوصاً جب کہ وہ شخص بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو تو لوگوں کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا اور اس کے شر کو روکنا ڈاکوؤں اور راہ زنوں کے شر کو روکنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ جو شخص علمی و دینی مسائل پر اپنے اجتہاد سے اظہار خیال کرتا ہے وہ مجتہد کا حکم رکھتا ہے وہ خطاکار بھی ہو سکتا ہے اورحق پر بھی۔ بعض اوقات زبان و قلم یا شمشیر و سنان کے ساتھ اختلاف کرنے والے دونوں اشخاص مجتہد ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ، بعض دفعہ وہ دونوں خطاء پر ہوتے ہیں اور ان کو بخش دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تنازعات کے بارے میں بیان کر چکے ہیں ۔یہی جہ ہے کہ مشاجرات صحابہ و تابعین پر اظہار خیال کرناممنوع ہے۔ جب دو مسلمان کسی بات میں جھگڑ پڑیں اور وہ معاملہ رفت گزشت ہو جائے اور لوگوں کا اس سے کچھ تعلق نہ ہو اور نہ وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں تو اس پر اظہار رائے کرنا بلا علم و عدل ہو گا جس سے انھیں بلا وجہ ایذا پہنچے گی۔ اور اگر لوگ
Flag Counter