﴾[آل عمران ۱۶۵ ]
’’اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقیناً اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاِِنْ تُصِبْہُمْ سَیَِّٔۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَاِِنَّ الْاِِنسَانَ کَفُوْرٌ ﴾[الشوری ۴۸]
’’ اور اگر انھیں اس کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی ہے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو بے شک انسان بہت نا شکرا ہے۔‘‘
یعقوب سے کردم کی روایت میں ﴿فمن نفسک ﴾آیا ہے۔ اس کا معنی متواتر قرأت کے خلاف ہے۔ پس اس پر کوئی اعتماد نہیں کیا جائے گا۔
اس آیت کا یہ معنی ایک حدیث قدسی میں بھی پایا جاتا ہے؛ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :]
’’ اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لیے اکٹھا کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔‘‘ [صحیح مسلم:ج ۳:ح ۲۰۷۱]
پس اس آیت کریمہ کا معنی ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو اپنے اوپر آنے والی ہر مصیبت کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی وجہ سے قرار دیتے ہیں ؛ بھلے ایسا کہنے والا کوئی بھی ہو۔ پس جو کوئی یہ کہتا ہے کہ :ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو تقدیم بخشنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز میں آگے کرنے ؛ اور ان دونوں کی [ولایت اوردوستی] کی وجہ سے ایسے ہوا؛ اور ان پر یہ مصیبت آن پڑی۔
توان سے کہا جائے گا : یہ مصیبت تمہارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا () وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ﴾[الطلاق ۲۔۳]
’’ اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا ۔‘‘
بلکہ یہ تمام باتیں اہل ایمان کے لیے ناحق ایذا رسانی ہیں ۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا﴾ (الحجرات:۱۲)
’’ایک دوسرے کی غیبت مت کرو۔‘‘
احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غیبت کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر ایسے انداز میں کرو کہ وہ اسے ناپسند کرے۔ آپ سے
|