Maktaba Wahhabi

38 - 49
﴿فَلا تَسْئلْنِیْ عَنْ شِیْئٍ حَتّٰی اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا﴾ یعنی تم مجھ سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے جب تک کہ میں خود تم کو نہ بتاؤں۔ چنانچہ تقلید امام کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مقلد آدمی اپنے امام سے کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ انتھی کلامہ جواب: جناب! اس آیت سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ دلیل کا مطالبہ نہیں کر سکتا ‘ہاں اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ دلیل کا مطالبہ کرنے میں جلدی نہ کرنا جو کہ لفظ ﴿حَتّٰی اُحْدِثَ﴾ سے معلوم ہوتا ہے ۔ یوں لگتا ہے تقلید کی پٹی آپ کی آنکھوں پر بندھی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کی ہر جگہ میں تقلید ہی تقلید نظر آتی ہے ا س کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں اتا۔ جناب میر محمد صاحب موسیٰ علیہ السلام کا یہ واقعہ آپ کے مذہب کے خلاف اور ہماری تائید میں ہے۔آپ ذرا قرآن پر نظر ڈال کر دیکھ لیں اور یہ بات کسی بھی عالم پر مخفی نہیں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ہر جگہ پر خضر علیہ السلام سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا؟سورۃ کہف کو غور سے پڑھ لیں اور اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ شریعت کے خلاف کوئی بھی کام ہوتے ہوئے دیکھو تو دلیل کا مطالبہ کرو بلکہ ہمیں تو قرآن کریم یہی تعلیم دیتا ہے۔ ﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾ ترجمہ:اس چیز کی پیروی مت کر و جس کا تم کو علم نہ ہو۔ وقال تعالیٰ:﴿قُلْ ھٰذِہٖ سَبِْیلِْی أَدْعُوْا اِلٰی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف ۱۰۸)۔ ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ یہ ہے میرا راستہ میں بلاتا ہوں اللہ کی طرف معرفت اور دلیل کے ساتھ یہ میرا بھی کام ہے اور میرے ماننے والوں کا بھی۔ اب بتائیے میر محمد صاحب… قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ کوئی بھی کام دین کا کرو تو دلیل کے ساتھ کرو۔ اور یہ کام صرف نبی کا نہیں یا صرف مجتہد کا نہیں بلکہ ہر وہ انسان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ کیوں کہ قرآن میں آیا ہے ﴿ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ جو بھی میری اتباع کرنے وا لا ہے ۔بلکہ دنیا میں جو بھی شخص دین میں کوئی بات کرے گا اس سے دلیل کا مطالبہ کرنا قرآن کریم کا حکم ہے۔ قال تعالٰی: ﴿قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ (الأنبیاء ۲۲)۔ ترجمہ:کہو اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو۔
Flag Counter