Maktaba Wahhabi

22 - 35
تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دل و جان سے چاہتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام وارشادات پر عمل پَیرا ہونا اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت پر مَرمٹتے تھے۔ لیکن جب ہم اس مروّجہ عید میلاد کو تلاش کرتے ہیں تو ان کی زندگیوں میں اس کا کہیں سراغ تک نہیں ملتا۔نہ خلیفہء اوّل حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، نہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں، نہ حضرت عثمان ذ والنّورین رضی اللہ عنہ کے عہد میں،نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اور نہ ہی ایک لاکھ چالیس ہزار سے بھی زیادہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے کسی کے قول وعمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔اورجو عمل موقع اور گنجائش ہونے اور ممانعت بھی کوئی نہ ہونے کے باوجودرسول کے شیدائیوں اورمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پہ مرمٹنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ رہا ہو۔ وہ یقیناً شریعتِ اسلامیہ کا جزء نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ہمیں اس بدگمانی کا کھل کر اظہار کر دینا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضی اﷲعنہم کو نعوذُ بِاﷲنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ تھی یا کم از کم اتنی نہ تھی جتنی آج کے جشن منانے والوں کو ہے۔ بخاری و مسلم شریف میں ارشادِ نبوی ہے:۔ {خَیْرُ اُ مَّتِیْ قَرْنِیْ۔ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُم} [1] ’’تمام زمانوں سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس کے بعدوالے ہیں۔اور پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد والے ہیں۔‘‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والے لوگوں میں سے اپنے اور اپنے صحابہ، پھر تابعین اور اس کے بعد تبع تابعین کے تین زمانوں کو قرون ِخیر قرار دیا ہے اور اس میلاد النّبی کے بارے میں صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی سے کچھ منقول نہیں کہ ان تینوں صدیوں میں ہی کسی نے یہ عیدِ ثالث منائی ہو۔
Flag Counter