ہوئے تھے اور میرے لیے ان میں نمونہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہنے والوں میں سے ہم تین کے ساتھ گفتگو سے منع فرمادیا۔ لوگ ہم سے دور ہوگئے اور وہ ہمارے ساتھ اس قدر بدل گئے، یہاں تک کہ میں نے زمین کو بھی اپنے لیے مختلف پایا، زمین وہ نہ رہی تھی، جس سے میں آشنا تھا۔ ہم اسی حالت میں پچاس روز رہے۔
میرے دو ساتھیوں نے تو ہمت ہار دی اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے روتے رہے۔ میں تینوں میں سے نسبتاً جوان اور طاقت ور تھا، میں باہر نکلتا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا اور بازاروں میں گھومتا، [لیکن] مجھ سے کوئی گفتگو نہ کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ نماز کے بعد اپنی مجلس میں تشریف فرمائے ہوتے، تو میں سلام عرض کرنے کے بعد اپنے دل میں کہتا: ’’ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب دینے کی خاطر اپنے لبوں کی حرکت دی ہے یا نہیں ؟
پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتا، جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف توجہ فرماتے اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رخ مبارک کو پھیرلیتے۔
آخر جب لوگوں کی یہ بے رخی دراز ہوتی گئی، تو میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی طرف گیا اور اس کی دیوار پر چڑھ گیا۔ وہ میرے چچا زاد بھائی اور لوگوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارے تھے۔ میں نے انہیں سلام کہا۔
اللہ تعالیٰ کی قسم! انہوں نے میرے سلام کا جواب [تک]نہ دیا۔
میں نے کہا: ’’اے ابو قتادہ! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ! کیا تمہیں میرے بارے میں اس بات کا علم ہے، کہ میں اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ؟ ‘‘
|