نہیں ، اللہ تعالیٰ کی قسم! [پیچھے رہنے کے لیے] میرے پاس کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! آپ سے پیچھے رہتے وقت، میں اس قدر قوی اور آسودہ حال تھا، کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں تھا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ أَمَّا ھٰذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّی یَقْضِيَ اللّٰہُ فِیْکَ۔‘‘
’’ اس نے یقینا سچی بات بتلائی ہے، سو اٹھ جاؤ، یہاں تک ،کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ [خود ہی] فیصلہ فرمادیں ۔ ‘‘
میں اُٹھا اور میرے پیچھے بنو سلمہ کے کچھ لوگ دوڑے ہوئے آئے، اور مجھ سے کہنے لگے:
’’ ہمارے علم کے مطابق تم نے اس سے پہلے کوئی گناہ نہیں کیا۔ تم نے بڑی کوتاہی کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کوئی ایسا عذر پیش نہیں کیا، جیسا کہ پیچھے رہنے والے [دیگر] لوگوں نے بیان کیا ہے۔ تمہارے گناہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کافی تھا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کی قسم! ان لوگوں نے مجھے اتنی ملامت کی، کہ میں نے واپس پلٹ کر اپنی تکذیب کا ارادہ کرلیا۔ [یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے سابقہ بیان کی تکذیب کرکے جھوٹا عذر پیش کردوں ]، پھر میں نے ان سے دریافت کیا: ’’کیا کسی اور کو بھی میری والی صورتِ حال پیش آئی ہے؟ ‘‘
انہوں نے بتلایا: ’’ ہاں ، دو اشخاص نے وہی بات کہی ہے، جو تم نے کہی ہے اور ان سے وہی کہا گیا ہے، جو تم سے کہا گیا ہے۔ ‘‘
میں نے پوچھا: ’’ وہ دونوں کون ہیں ؟ ‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’ مرارہ بن ربیع العمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما ۔ ‘‘
انہوں نے میرے لیے دو ایسے اشخاص کا ذکر کیا، جو کہ غزوہ بدر میں شریک
|