Maktaba Wahhabi

70 - 190
کہنے کا پختہ عزم کرلیا۔ صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی، کہ جب سفر سے واپس آتے، تو پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں کے لیے تشریف فرما ہوتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم [حسب عادت] ایسا کرچکے، تو پیچھے رہنے والے لوگ آکر قسمیں کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کی تعداد اسّی (۸۰)سے کچھ اوپر تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرمایا، ان سے عہد لیا، ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کے باطن کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا۔ ان کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوا، میں نے سلام عرض کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور آپ کی مسکراہٹ میں ناراضی تھی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آؤ [یعنی قریب ہوجاؤ]۔ ‘‘ میں چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’ مَا خَلَّفَکَ؟ أَلْمْ تَکُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَھْرَکَ؟‘‘ [تمہیں کس چیز نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہ رکھی تھی؟] میں نے عرض کیا: ’’ کیوں نہیں [یعنی میں نے سواری خرید رکھی تھی]، اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر میں آپ کے سوا دنیا کے کسی اور شخص کے پاس بیٹھا ہوتا، تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا۔ مجھے بات بنانے کا سلیقہ دیا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی قسم! مجھے یقین ہے، کہ اگر آج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کرکے آپ کو راضی کرلوں گا، تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ کو مجھ سے ناراض کردیں گے اور اگر میں نے آپ کے حضور سچی بات عرض کی، تو آپ کو مجھ پر خفگی ہوگی، لیکن ایسی بات کرتے ہوئے مجھے اللہ تعالیٰ سے معافی کی پوری امید ہے۔
Flag Counter