قرآن کریم اور کلام عرب میں اس کی مثالیں لا تعداد ہیں ۔ [1]
ج۔ ان کے ساتھ جھوٹ کی بعض صورتوں کا بیان:
حافظ ابن حجر نے تحریر کیا ہے: ’’ان الفاظ زائدہ کا مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے لوگوں میں سے بعض لوگوں کا ذکر کرنا ہے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ:
{لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا أَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً} [2]
[اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ۔]
اور آیت کریمہ:
{وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ إِمْلَاقٍ} [3]
[اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب سے قتل نہ کرو۔]
میں اولاد کے قتل اور بڑھا چڑھا کر سود کھانے سے خصوصی طور پر منع کیا گیا ہے ، اور اس کا مقصد یہ نہیں ، کہ اولاد کے علاوہ دیگر لوگوں کا قتل اور بڑھانے چڑھانے کے بغیر سود کھانا درست ہے۔ اسی طرح لوگوں کو گم راہ کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے سے خصوصی طور پر منع کرنے سے مقصود یہ نہیں ، کہ کسی اور غرض سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا جائز ہے۔ [4]
خلاصہ گفتگو یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی بھی صورت میں جھوٹ باندھنا جائز نہیں ۔ اس کے جواز کی خاطر بعض لوگو ں نے جو دلائل پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ امام نووی لکھتے ہیں : خلاصہ کلام یہ ہے، کہ ان کا موقف اس قدر کمزور ہے، کہ اس کے رد کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت نہیں ، اور وہ عقل و فکر سے اس
|